روس کا ایک وفد آج استنبول میں امریکی قونصل جنرل کی رہائش گاہ پر روس امریکا کے مذاکرات کے لیے پہنچا ہے۔ مذاکرات کا مقصد واشنگٹن اور ماسکو کے درمیان تنازعات کو حل کرنا ہے۔
یہ ملاقات 12 فروری کو صدور ولادیمیر پوتن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان فون کال اور 18 فروری کو سعودی عرب میں اعلیٰ سطحی سفارتی ملاقات کے بعد ہو رہی ہے۔
صرف پانچ ہفتوں کے اندر ہی ٹرمپ نے اپنے پیشرو جو بائیڈن کی پالیسی کو پلٹ دیا ہے۔ جس نے یوکرین کے خلاف جنگ چھیڑنے پر روس کو تنہا کرنے اور سزا دینے کی کوشش کی۔
یوکرین اور اس کے یورپی اتحادیوں کو خدشہ ہے کہ تنازعہ کو تیزی سے ختم کرنے کے لیے ٹرمپ کا دباؤ ماسکو کے ساتھ ایک معاہدے کا باعث بن سکتا ہے جو یورپ کو الگ کر دے گا اور ان کی سلامتی کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
امریکی محکمہ خارجہ نے کہا کہ جمعرات کو ہونے والی بات چیت، جس کی قیادت ورکنگ لیول کے اہلکار کریں گے، ان میں یوکرین یا سیاسی یا سیکیورٹی کے معاملات پر کوئی بات چیت شامل نہیں ہوگی، لیکن پھر بھی اسے ماسکو کے ارادے کے امتحان کے طور پر دیکھا جائے گا۔

محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ “واضح طور پر، ایجنڈے میں کوئی سیاسی یا سیکورٹی مسائل نہیں ہیں۔ یوکرین ایجنڈے میں شامل نہیں ہے”۔
روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے کہا کہ بات چیت میں عملے کی سطح اور سفارتخانے کی جائیدادوں پر تنازعات کے بعد، امریکا میں روسی سفارت کاروں اور روس میں ان کے امریکی ہم منصبوں کے لیے بہتر حالات پیدا کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے گی۔
لاوروف نے کہا کہ “نتیجہ یہ ظاہر کرے گا کہ ہم کتنی جلدی اور مؤثر طریقے سے آگے بڑھ سکتے ہیں”۔ٹرمپ نے کہا ہے کہ “وہ یوکرین میں جنگ بندی کی طرف تیزی سے آگے بڑھنا چاہتے ہیں، لیکن پوٹن نے اس ہفتے تیز رفتار پیش رفت کی توقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا کہ روس اور امریکا کے درمیان اعتماد کی بحالی کے بغیر کچھ حاصل نہیں کیا جا سکتا”۔