شام میں بشار الاسد کے اقتدار کے دوران ایک فوجی ہوائی اڈے پر 1,000 سے زیادہ افراد کو قید، تشدد، اور اذیت دینے کے بعد قتل کر دیا گیا، جن میں اکثریت وہ افراد شامل تھی جنہیں صرف احتجاج یا حکومت کے خلاف آواز بلند کرنے کی وجہ سے قید کیا گیا تھا۔
یہ حیرت انگیز انکشاف ایک نئی رپورٹ میں سامنے آیا ہے جس میں ان ہلاکتوں کو سات مختلف قبروں تک جوڑا گیا ہے۔
یہ رپورٹ ‘شام جسٹس اینڈ اکاؤنٹیبلٹی سینٹر (SJAC) ‘کی جانب سے تیار کی گئی ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ شام کے دارالحکومت دمشق کے مضافات میں واقع میضہ فوجی ہوائی اڈے پر 2011 سے 2017 تک 1,154 افراد کی ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ ان افراد کو تشدد، اذیت، یا پھانسی کے ذریعے مارا گیا، جن کا مقصد حکومت مخالف تحریکوں کو کچلنا تھا۔
رپورٹ میں اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ ان ہلاکتوں کی اصل وجوہات میں سے ایک بہت بڑی وجہ ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور ان کے بارے میں معلومات کا مکمل طور پر چھپانا تھا۔
اس رپورٹ میں سات ممکنہ قبروں کی شناخت کی گئی ہے جن میں ان ہزاروں ہلاک شدگان کی لاشیں دفن کی گئی تھیں۔ یہ گوریں میضہ ہوائی اڈے کے علاقے میں اور دمشق کے مختلف حصوں میں واقع ہیں۔
ان مقامات کی شناخت سیٹلائٹ امیجز، گواہیوں، اور مسروق شدہ دستاویزات کی مدد سے کی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 4 یرغمالیوں کی نعشیں اسرائیل کے حوالے، 642 فلسطینی قیدی رہا
SJAC نے 156 زندہ بچ جانے والوں اور آٹھ سابقہ انٹیلیجنس افسران سے انٹرویو کیے تاکہ اس تباہ کن حقیقت کو منظر عام پر لایا جا سکے۔
ان کے مطابق، میضہ فوجی ہوائی اڈہ اسد کے دور حکومت میں ایک انتہائی خوفناک جیل کی شکل اختیار کر چکا تھا۔ یہاں قید کیے گئے افراد کے ساتھ بدترین سلوک کیا جاتا تھا جس میں جسمانی اور ذہنی تشدد شامل تھا۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ان افراد میں سے بہت سے کو پھانسی دے دی گئی تھی جبکہ بعض کو فائرنگ اسکواڈ کے ذریعے قتل کر دیا گیا تھا۔
گواہوں نے بتایا کہ قیدیوں کے ساتھ وہ سلوک کیا جاتا تھا جو انسانیت کے تصور سے بھی باہر تھا اور اس دوران انھیں اذیت دی جاتی تھی تاکہ وہ جھوٹے اعترافات کریں۔ یہ انکشاف اس لیے اہم ہے کہ اس سے قبل ایسی معلومات منظر عام پر نہیں آئی تھیں۔
اس رپورٹ میں ان دفن شدہ قبروں کا پتا چلایا گیا ہے اور ان کا مواد بین الاقوامی سطح پر ایک نئی بحث کا آغاز کر سکتا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسد کے دور حکومت میں جب بھی کسی شخص کو حکومت کے مخالف سمجھا جاتا تو اس کو یا تو جیل میں ڈال دیا جاتا یا پھر فورا قتل کر دیا جاتا تھا۔
لازمی پڑھیں: امریکی فوج سے ٹرانس جینڈر اہلکاروں کی برطرفی کا حکم
ان میں سے بعض افراد کو محض اس لیے قتل کیا گیا کہ انھوں نے حکومت کے خلاف آواز اٹھائی تھی جبکہ بعض کو تو ایسی حالت میں اذیت دی گئی کہ وہ زندہ رہنے کے قابل نہیں رہے۔
شادی ہارون، جو اس رپورٹ کے مصنفین میں شامل ہیں، وہ خود 2011 اور 2012 کے دوران اس فوجی ہوائی اڈے پر قید رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ ہر دن قیدیوں کو جسمانی اور ذہنی اذیت کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ وہ یاد کرتے ہیں کہ انھیں بار بار جھوٹے اعترافات پر مجبور کیا جاتا تھا اور اس دوران ان پر شدید تشدد کیا جاتا تھا۔
ان کے مطابق جو قیدی ہلاک ہو جاتے تھے ان کی لاشیں فورا دفن کر دی جاتیں تاکہ اس کے بعد کسی کو ان کی ہلاکت کی خبر نہ ہو سکے۔
رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ اسد کے دور میں 100,000 سے زیادہ افراد کو لاپتہ کیا گیا اور ان میں سے زیادہ تر افراد کی حالت ابھی تک مشتبہ ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق ان افراد کا کوئی پتہ نہیں چل سکا اور ان کی زندگیاں ابھی تک سوالیہ نشان ہیں۔
یہ رپورٹ شام میں انسانی حقوق کی پامالیوں کے خلاف عالمی سطح پر تحقیقات اور سزا کا مطالبہ کرتی ہے۔
اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ میضہ فوجی ہوائی اڈہ 2011 سے 2017 تک کم از کم 29,000 افراد کا مقام تھا جنہیں حکومت کے مخالفین کے طور پر قید کیا گیا تھا۔ ان افراد کو اغوا کیا گیا اور ان کے ساتھ بہیمانہ سلوک کیا گیا۔
دسمبر 2020 میں ‘امریکی وزارت انصاف’ نے شام کے دو اعلیٰ افسران کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات عائد کیے تھے۔ ان افسران پر الزام تھا کہ انہوں نے میضہ ہوائی اڈے پر قیدیوں پر تشدد کیا اور انہیں اذیت پہنچائی۔
اس رپورٹ کے سامنے آنے کے بعد شام کے موجودہ حکام اور عالمی برادری پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ اس قتل عام کی تحقیقات کریں اور ذمہ داروں کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔
اس رپورٹ کے ذریعے یہ بات ثابت ہو گئی کہ شام میں اسد حکومت کی طرف سے انسانی حقوق کی پامالیوں کا ایک خوفناک سلسلہ جاری رہا ہے جس کا اثر ہزاروں بے گناہ شہریوں کی زندگیوں پر پڑا۔