اپریل 8, 2025 6:19 شام

English / Urdu

Follw Us on:

آپریشن سوئفٹ ریٹوٹ کے چھ سال

جویریہ صدیق
جویریہ صدیق

آپریشن سوئفٹ ریٹوٹ پاکستان کی وہ تاریخ ہے جو ہم سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھی۔ پاکستان کے معروف صحافی ارشد شریف مرحوم تو اس جگہ کوریج کرنے پہنچ گئے جہاں ہندوستان نے رات کی تاریکی میں چھپ کر حملہ کیا تھا۔ یہ بالا کوٹ کا علاقہ جابہ تھا اس وقت درجہ حرارت منفی میں تھا لیکن ارشد شریف ہندوستان کے اس ناکام حملے کے تمام تر شواہد سامنے لے کر آئے۔ یہ ایک فیک سرجیکل سٹرائک تھی یہاں تک کے ان خلاف ہندوستان میں مقدمے درج کرنے کی درخواست دی گئی اور انکے ٹویٹراکاونٹ کو بھی بند کرانے کی کوشش کی گئی۔

میں بھی اس حوالے سے حقائق سامنے لا رہی تھی، ہندوستانی ٹرول آرمی نے مجھے سوشل میڈیا پر اٹیک کرنا شروع کر دیا۔ پر ہم دونوں ڈٹے رہے اور اپنا اپنا کام کرتے رہے۔ ۲۷ فروری ۲۰۱۹ کا سورج اپنے ساتھ ایک نئی تاریخ رقم کرگیا۔ پاکستانی ائیرفورس نے ہندوستان کو ان کے گھر میں گھس کر مارا۔

ہندوستان یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پاکستان کی طرف سے جواب اتنا شدید ہوگا۔ وہ آہستہ آہستہ سازش بن رہے تھے خود اپنے ملک میں فالس فلیگ آپریشن کروایا اور الزام پاکستان پر لگا کر حملہ کرنے کی ٹھان لی۔

پلوامہ ایک فالس فیلگ آپریشن تھا تاکہ حملہ کر کے مودی سرکار انتخابات میں جیت حاصل کر لے اگر اس بات پر غور کریں کہ جس فوجی قافلے پر حملہ ہوا اس حملے میں نچلی ذات کے فوجی زیادہ مارے گئے جس کشمیری نوجوان عادل ڈار پر اس حملے کا الزام لگا وہ کچھ ماہ سے لاپتہ تھا اور وہ اتنا گولہ بارود کیسے مقبوضہ کشمیر میں لے کر جا سکتا تھا جہاں لاکھوں کی تعداد میں بھارتی فوج تعینات ہے۔

ہندوستان کو کبھی مجرم ڈھوںڈنے بنانے میں مشکل ہو رہی تھی تو کبھی سہولت کاری کا الزام لگانے کے لئے کسی کو ڈھونڈ رہے تھے۔اچانک ہندوستان نے شور کرنا شروع کر دیا کہ عبدالرشید غازی مرحوم اس کے منصوبہ ساز ہیں حالانکہ وہ لال مسجد آپریشن میں جان کی بازی ہار گئے تھے تو وہ کیسے ۲۰۱۹ میں کسی حملے کی منصوبہ بندی کرسکتے تھے۔

۱۴ فروری کو مقبوضہ کشمیر میں حملہ ہوتا ہے سی آر پی ایف کے چالیس اہلکار مارے جاتے ہیں اور ۸ زخمی ہوتے ہیں۔ پندرہ فروری کو مودی سرکار پاکستان پر الزام لگا دیتی ہے۔ اس ہی روز پاکستانی وزارت خارجہ ان الزامات کی تردید کرتی ہے۔

اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے اس ہی وقت خطرے کو بھانپ کر سب کے سامنے اعلان کر دیا تھا کہ کسی بھی جارحیت کی صورت میں پاکستان بھرپور جواب دے گا۔ ۲۰ فروری کو اقوام متحدہ نے صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے ثالثی کی پیشکش کی تاہم دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی برقرار رہی۔

ہندوستان نے یہ کہا کہ عادل ڈار کا تعلق جیش سے اور جیش کو مولانا مسعود اظہر نے ۲۰۰۰ کی دہائی میں بنایا تھا جس پر اس وقت کی مشرف حکومت نے پابندی لگا دی تھی۔ اس لئے یہ بات ایک مفروضہ ہی لگ رہی تھی کہ ایک غیر فعال تنظیم ہندوستان میں کئی کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے حملہ کر دے۔

دوسری طرف ہندوستان نے پاکستان کے خلاف آپریشن لانچ کر دیا اور اسکو آپریشن بندر کا نام دیا۔ آپریشن بندر کے تحت ہندوستان کی ائیرفورس نے بالا کوٹ میں جیش کا ہیڈ کوارٹر تباہ کرنا تھاْ۔ ہندوستان نے بہاولپور، لاہور اور سیالکوٹ سیکٹرز کی طرف پیش قدمی کی جس کو پاکستان کی ائیر فورس نے روک دیا تاہم ہندوستان لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بالاکوٹ میں داخل ہوا انکی جہازوں کی فارمیشن فائیو ناٹیکل مائل تک اندر آئی۔

جیسے ہی پاک فضائیہ ان کے مدمقابل آئی تو ہندوستانی طیارے جابہ کے مقام پر پے لوڈ گراکر بھاگ گئے۔ مرحوم ارشد شریف جابہ پہنچنے والے سب سے پہلے صحافی تھے انہوں دیکھا کہ وہاں درختوں اور جنگل کو جزوی نقصان ہوا اور وہاں کوئی ہیڈ کوارٹر موجود نہیں ہے۔ ۲۷ فروری کو پاکستان نے دن کی روشنی میں منہ توڑ جواب دیا۔

پاک فضائیہ نے ملٹری ٹارگٹ لئے اور انکی فوجی تنصیبات کے پاس بم گرائے۔ پاکستان کی فارمیشن میں ایف سولہ جے ایف ۱۷ تھنڈر شامل تھے۔ جب دونوں ممالک کے طیارے مدمقابل آئے تو پاکستان نے ہندوستان کے دو طیارے تباہ کیے جس میں سو تھرٹی کا ملبہ ہندوستان میں گرا اور ابھی نندن کا جہاز مگ ۲۱ آزاد کشمیر میں کریش کرگیا اوراس کو جنگی قیدی بنا لیا گیا۔

پاک فضائیہ نے ٹارگٹ لاک کرنے اور حملے کی ویڈیو بھی جاری کی جبکہ ہندوستان آج تک ایسا کوئی ثبوت نہیں دے سکا۔ پاکستان کے تمام پائلٹس اور ان گراونڈ عملے نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور ونگ کمانڈر نعمان علی خان، ونگ کمانڈر فہیم احمد اور سکواڈرن لیڈر حسن صدیقی کو تمغوں سے نوازا گیا۔

ہندوستان شکست فاش کے بعد بھی باز نہیں آیا اور یہ دعویٰ کر دیا کہ ابھی نندن نے جہاز تباہ ہونے سے پہلے پاکستان کا ایف سولہ طیارہ گرایا۔ اسلام آباد ائیر ہیڈ کوارٹرز میں ابھی نندن کے جہاز کا ملبہ دیکھایا گیا تو اس کے جہاز کے میزائل جزوی جلے ہوئے سالم حالت میں موجود تھے۔

میں نے ارشد نے بھی اس روز جنگ لڑی تھی۔ ارشد جابہ گئے، ٹی وی شوز کیے اور ٹویٹر کا محاذ سنبھالا جبکہ میں نے جنگ سوشل میڈیا پر لڑی جوکہ فیک نیوز کے خلاف تھی۔

 بھارتی حکومت اور میڈیا وار ہسٹیریا بڑھا رہے تھے اور پاکستانی حکومت مسلح افواج اور میڈیا نے بہت احتیاط ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ آج چھ سال ہوگئے اور ہم فخر سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ ہم پاکستان کے دفاع کا حصہ بنے اور اپنے سامنے پاکستان کی کامیابی دیکھی۔

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس