میانمار میں بین الاقوامی آپریشنز کے دوران غیر قانونی اسکیم سینٹرز سے نکالے گئے غیر ملکی باشندوں کو نہ صرف انتہائی مشکل حالات کا سامنا ہے بلکہ وطن واپس جانے کے لئے مالی وسائل کی بھی کمی محسوس ہو رہی ہے۔
ان افراد کو ایک دور دراز کیمپ میں منتقل کیا گیا ہے جہاں کھانے پینے کی کمی، صفائی کے ناقص حالات اور دیگر مشکلات نے ان کی زندگی کو مزید اذیت ناک بنا دیا ہے۔
یہ افراد، جنہیں میانمار کے سرحدی علاقے میں واقع کیمپ میں رکھا گیا ہے ان کا کہنا ہے کہ یہاں کیمپ کی حالت انتہائی خراب ہے اور بنیادی ضروریات کی کمی ہے۔
اس کیمپ میں 470 سے زائد افراد موجود ہیں جن میں سے اکثریت افریقی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے بعض افراد نے اپنے تجربات شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ وہ دن میں ایک یا دو بار کھانا کھاتے ہیں جبکہ صفائی کے حوالے سے بھی کوئی خاص انتظامات نہیں ہیں۔
ایک 29 سالہ افریقی نے شخص میڈیا کو بتایا کہ “ہم دن میں ایک یا دو بار ہی کھانا کھاتے ہیں، اور بعض اوقات ہمیں ایک بار بھی کھانا نہیں ملتا۔ خواتین کے لئے سینیٹری پیڈز تک کی فراہمی نہیں ہے۔ ہم سب کو پانچ ٹوائلٹس پر 500 افراد کا بوجھ اٹھانا پڑتا ہے۔”
اس کے علاوہ کیمپ کے اندر کا ماحول مزید اذیت ناک ہوتا جا رہا ہے۔ ایک اور افریقی شہری نے کہا کہ “ہم یہاں جانوروں کی طرح زندگی گزار رہے ہیں۔ اس جگہ پر کوئی انسانیت نہیں ہے اور ہمیں کوئی خیال نہیں رکھا جا رہا۔”
یہ بھی پڑھیں: برفانی تودہ کی زد میں آنے سے 57 مزدور پھنس گئے، ریسکیو آپریشن جاری
دوسری طرف ‘ڈی کے بی اے’ (ڈیموکریٹک کرن بینولیٹ آرمی) کے عہدیدار سان آوگ نے کہا کہ ان کا گروپ ان غیر ملکیوں کی مدد کرنے کی پوری کوشش کر رہا ہے اور روزانہ دو وقت کھانا فراہم کر رہا ہے۔ تاہم، اس نے اعتراف کیا کہ ٹوائلٹس کی کمی ایک حقیقت ہے اور یہ کہ ان لوگوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے حالات مشکل ہو گئے ہیں۔
میانمار میں ان اسکیم سینٹرز کا انکشاف کچھ ہفتے پہلے ہوا جب تھائی لینڈ میں ایک چینی اداکار کا اغوا کیا گیا تھا، جس کے بعد متعدد ممالک نے اس بات کا عہد کیا کہ وہ ان غیر قانونی مراکز کو ختم کریں گے۔
ان مراکز میں سینکڑوں افراد کو غیر قانونی طور پر قید کر کے کام پر مجبور کیا جا رہا تھا، جن میں سے بیشتر کو انسانی اسمگلنگ کا شکار بنایا گیا تھا۔
چین، تھائی لینڈ اور میانمار کی حکومتیں اس وقت ان اسکیم سینٹرز کو بند کرنے کی کوشش کر رہی ہیں، اور ان افراد کو وہاں سے نکالنے کے لیے اقدامات کر رہی ہیں۔
اس کارروائی کے نتیجے میں سینکڑوں افراد کو آزاد کرایا جا چکا ہے، تاہم اب بھی 7,000 سے زائد افراد، جن میں سے بیشتر افریقی ممالک سے تعلق رکھتے ہیں وہ اس کیمپ میں پھنسے ہوئے ہیں۔
مزید پڑھیں: دو سال پہلے ہونے والے ٹرین حادثے کی یاد میں لاکھوں یونانی سڑکوں پر
کیمپ میں موجود افراد کو اپنے وطن واپس جانے کے لیے مالی وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔ ایک 29 سالہ شخص نے بتایا کہ “میں نے چین میں اپنے ملک کے سفارتخانے سے رابطہ کیا تھا، لیکن مجھے بتایا گیا کہ مجھے خود ہی ٹکٹ کا بندوبست کرنا ہوگا۔”
اسی طرح ایک اور شخص نے بتایا کہ اس نے اپنے ملک کے سفارتخانے سے رابطہ کیا تھا لیکن وہ اور دیگر افراد ٹکٹ کی قیمت ادا کرنے کے قابل نہیں ہیں۔
یاد رہے کہ اس کیمپ میں ایسے افراد بھی ہیں جو تین ماہ سے زیادہ عرصے سے ان اسکیم سینٹرز میں قید ہیں، اور ان کی حالت انتہائی بدتر ہو چکی ہے۔ ان افراد کے لئے واپس جانے کا راستہ بند ہو چکا ہے، اور ان کی حالت مزید بدتر ہو رہی ہے۔
ایک شخص نے کہا ہے کہ “ہمیں یہ خوف ہے کہ کہیں ہمیں دوبارہ ان اسکیم سینٹرز میں نہ بھیج دیا جائے جہاں ہمیں زبردستی کام کرایا جاتا تھا اور جہاں تشدد کی خبریں بھی آئی ہیں۔”
یہ بھی پڑھیں: روبوٹ سے مریضوں کی نگہداشت کیا جاپانی آبادی کے مسائل حل کر پائے گی؟
کیمپ میں موجود افراد نے ویڈیوز اور تصاویر شیئر کی ہیں جن میں ٹوائلٹس کی گندگی اور کھانے کی حالت کی تصویریں دکھائی گئی ہیں۔ ان تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ٹوائلٹس میں گندگی ہے اور کھانے کی مقدار بہت کم ہے۔
ایک تصویر میں چند افراد زمین پر بے سدھ لیٹے ہوئے دکھائی دیتے ہیں جبکہ ایک اور تصویر میں کھانے کے چھوٹے حصے دکھائے گئے ہیں، جن میں چاول اور سبزیوں کا معمولی حصہ شامل تھا۔
کیمپ کی حالت نے ان غیر ملکی افراد کو مزید پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے، اور یہ خوف بڑھ رہا ہے کہ ان کے وطن واپس جانے کا کوئی طریقہ نہیں بچا۔
ان حالات میں جہاں ایک طرف ان افراد کی زندگی اجیرن ہو چکی ہے، وہیں دوسری طرف ان کا خوف بڑھ رہا ہے کہ وہ واپس ان اسکیم سینٹرز میں نہ بھیج دیے جائیں جہاں ان کے ساتھ بدسلوکی اور تشدد ہو رہا تھا۔ ان غیر ملکیوں کی حالت بے حد سنگین ہے، اور ان کے لئے واپس اپنے ملک جانا ایک خواب بنتا جا رہا ہے۔
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان افراد کو ان کے حقوق ملیں گے؟ کیا عالمی برادری اس مسئلے کی طرف توجہ دے گی؟
لازمی پڑھیں: کرد رہنما عبداللہ اوکلان کا بڑا اعلان: تحریک ختم کرنے اور مسلح ارکان کو ہتھیار ڈالنے کی اپیل