Follw Us on:

خاموش انقلاب: کمپیوٹر اسکرین سے عالمی سینما کا خواب

عاصم ارشاد
عاصم ارشاد

لاہور کی خاموش رات میں، جب سڑکیں سائیں سائیں کر رہی تھیں اور گلی کے کتے اپنے اپنے ٹھکانوں میں دبکے بیٹھے تھے، فرسٹ ائیر کی طالبہ دعا زہرہ ایک روشن اسکرین کے سامنے بیٹھی تھی۔ اس کے ہاتھ کی بورڈ پر تیزی سے چل رہے تھے، جیسے وہ ہر کلک کے ساتھ ایک نئی دنیا بنا رہی ہو۔

یہ کوئی اسکول پروجیکٹ نہیں تھا یہ پاکستان کی پہلی اے آئی جنریٹڈ اینیمیشن فلم “ہیچی” کی تخلیق تھی، جو نہ صرف ملک کی تخلیقی حدود کو آزما رہی تھی بلکہ دنیا کے سامنے پاکستانی اینیمیشن کا ایک نیا چہرہ پیش کرنے جا رہی تھی۔

ایک لمحہ، ایک چنگاری، ایک انقلاب، یہ  سب ایک عام سی شام کو شروع ہوا تھا۔ دعا لاہور کی ایک سڑک سے گزر رہی تھی جب اس نے ایک زخمی بے گھر کتے کو دیکھا، جو کانپ رہا تھا۔ “اس کی آنکھوں میں ایک کہانی تھی، لیکن اسے کوئی سننے والا نہیں تھا،”

اسی لمحے دعا کے ذہن میں ایک سوال آیا: “اگر جانور بول سکتے؟ اگر وہ اپنی کہانیاں ہمیں محسوس کرا سکتے؟”

یہ وہ لمحہ تھا جب “ہیچی” کا بیج بویا گیا۔

پاکستان میں اینیمیشن کی صنعت نہ ہونے کے برابر ہے کوئی پروڈکشن ہاؤس، کوئی تربیت، کوئی راہنما نہیں ہے۔ لیکن دعا نے فیصلہ کیا کہ اگر مواقع نہیں ہیں تو وہ خود انہیں تخلیق کرے گی۔

اس نے اپنے کمرے کو اسٹوڈیو بنا لیا اور یوٹیوب پر دن رات اے آئی ٹولز کے بارے میں سیکھنا شروع کیا۔:

Runway ML اور Pika Labs سے اینیمیٹڈ مناظر تخلیق کیے۔

Midjourney سے کرداروں کے لیے دلکش بیک گراؤنڈز تیار کیے۔

اپنے چھوٹے بھائی کو “کریٹیو ڈائریکٹر” بنا کر ہر سین پر بحث کی۔

“ہم چھت پر کہانیاں سوچتے، بجلی کے جانے کے درمیان خاکے بناتے، اور کمپیوٹر کے اوورلوڈ ہونے پر ہنستے۔”

پاکستان میں اینیمیشن انڈسٹری نہ ہونے کے برابر ہے اکثر لوگ اسے صرف اشتہارات یا بچوں کے کارٹونز تک محدود سمجھتے ہیں۔

“لوگ کہتے تھے، ‘یہ سب فضول ہے، پڑھائی پر دھیان دو،'” دعا ہنستے ہوئے کہتی ہے۔ “لیکن میں نے دیکھا کہ دنیا میں لوگ اے آئی کو استعمال کر کے سینما میں انقلاب لا رہے ہیں۔ میں نے سوچا، ‘اگر وہ کر سکتے ہیں، تو میں کیوں نہیں؟'”

دعا نے ایک ایسا ہائبرڈ ماڈل تیار کیا جس میں اے آئی کی طاقت اور انسانی تخلیقیت کو ملایا گیا۔

اے آئی جنریٹڈ بیک گراؤنڈز: لاہور کی گلیوں کو افسانوی انداز میں پیش کیا گیا۔

ہاتھ سے بنی اینیمیشن: کرداروں کے تاثرات کو انسانی جذبات سے ہم آہنگ کرنے کے لیے۔

“ہیچی” صرف فلم نہیں، ایک تحریک ہے

دعا صرف ایک اینیمیٹر نہیں، بلکہ ایک نظریہ لے کر آگے بڑھ رہی ہے۔ وہ اس فلم کو پاکستان میں جانوروں کے حقوق کی مہم میں استعمال کرنا چاہتی ہے، اور ساتھ ہی نئی نسل کو اے آئی اینیمیشن سکھانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

اس کا منصوبہ:

1. عالمی اسٹریمنگ پلیٹ فارمز: Netflix، Amazon Prime، اور Zee5 پر “ہیچی” کو ریلیز کرنا۔

2. اے آئی اینیمیشن ٹریننگ: پاکستانی نوجوانوں کو اینیمیشن کے جدید طریقے سکھانے کے لیے ورکشاپس کا آغاز۔

3. آسکر کا خواب: “کیوں نہیں؟” وہ مسکراتے ہوئے کہتی ہے۔ “اگر دی بوائے اینڈ دی ہیرون جیت سکتی ہے، تو لاہور کی ایک لڑکی بھی آسکر لے جا سکتی ہے۔”

دعا زہرہ نے جو کام کیا ہے، وہ صرف اس کی کہانی نہیں یہ پورے پاکستان کے خواب دیکھنے والوں کے لیے ایک پیغام ہے۔

“صلاحیت کسی جغرافیے کی محتاج نہیں۔ اگر لاہور کی ایک لڑکی صرف ایک لیپ ٹاپ اور خواب کے ساتھ یہ کر سکتی ہے، تو تم بھی کر سکتے ہو!”

عاصم ارشاد

عاصم ارشاد

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس