کووڈ ویکسین لگوانے والے متاثرین نے دعویٰ کیا ہے کہ ویکسین لگوانے کے بعد ان کی زندگیوں میں شدید مشکلات پیدا ہوئیں۔ ایک نئی ممکنہ حالت جسے ویکسین سنڈروم (پی وی ایس) کے شکار افراد نے کہا ہے کہ ویکسین لگوانے کے بعد وہ بے روزگار، بے گھر اور یہاں تک کہ اینٹی ڈپریسنٹس پر انحصار کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
برطانوی ویب سائٹ میل آن لائن کے مطابق مشتبہ متاثرین نے بتایا ہے کہ کووڈ ویکسین لینے کے بعد انہیں دماغی دھند، بے خوابی، ٹنیٹس (کانوں میں مستقل شور سنائی دینا)، دل کی دھڑکن کی بے ترتیبی اور دیگر پیچیدہ علامات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کچھ افراد نے کا کہنا ہے کہ انہیں ویکسین کے فوراً بعد علامات محسوس ہوئیں، جب کہ کچھ کے مطابق یہ اثرات وقت کے ساتھ ساتھ ظاہر ہوئے ہیں۔
ساؤتھ ویلز سے تعلق رکھنے والے ایک متاثرہ شخص نے میل آن لائن کو بتایا کہ وہ اپنی نوکری اور گھر سے محروم ہوگیا ہےاور اسے روزانہ ٹنیٹس اور دورے پڑتے ہیں، چکر آتے ہیں، دماغی دھند کی کیفیت ہوتی ہے اور وہ چلنے یا بولنے میں دشواری محسوس کرتا ہے اور اسے لگتا ہے کہ یہ سب پی وی ایس سے جڑا ہوا ہے۔

ایک اور متاثرہ شخص نے دعویٰ کیا کہ ویکسین لگوانے کے 24 گھنٹوں کے اندر اندر اس نے ٹنیٹس کی علامات محسوس کرنا شروع کر دیں، جو آج تک برقرار ہیں۔ اس نے مزید کہاکہ اس کے کانوں میں مسلسل ایک نبض جیسی آواز سنائی دیتی ہے، جس نے اس کی زندگی کو تباہ کر دیا ہے۔
متاثرہ شخص کے مطابق اس نے ذہنی دباؤ سے نمٹنے کے لیے اینٹی ڈپریسنٹس کا استعمال شروع کر دیا، لیکن نیند کی کمی اور بے چینی آج بھی اس کی زندگی کا حصہ ہیں۔
ییل یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے خبردار کیا ہے کہ فائزر اور موڈرنا ویکسین کے بعد پیدا ہونے والی علامات کئی سالوں تک برقرار رہ سکتی ہیں۔ تاہم، طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سنڈروم کے شواہد ابھی محدود ہیں اور مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
تحقیقی ٹیم کی سربراہ ڈاکٹر اکیکو ایواساکی نے کہا ہے کہ یہ تحقیق ابھی ابتدائی مراحل میں ہے اور وہ چاہتی ہیں کہ اس حوالے سے مزید شفافیت ہو، تاکہ متاثرہ افراد کے مسائل کو سمجھا جا سکے۔

دوسری جانب ہارورڈ یونیورسٹی کے ایک ماہر مطابق ویکسین کے ممکنہ ضمنی اثرات کا مطالعہ کرنا ضروری ہے، لیکن ابھی تک یہ ثابت نہیں ہوا کہ پی وی ایس واقعی ویکسین کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ اگر بغیر مکمل ثبوت کے کوئی نتیجہ اخذ کر لیا گیا، تو اس سے عوام کے ویکسین پر اعتماد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
برطانوی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ویکسین سے مبینہ طور پر زخمی یا جاں بحق ہونے والوں کے معاوضے کے دعوے 18,500 کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔ تاہم، سخت شرائط کے باعث ان میں سے صرف 200 سے زائد افراد کو معاوضہ دیا گیا ہے۔
ویکسین ڈیمیج پے منٹ اسکیم کے تحت متاثرہ افراد کو 120,000 پاؤنڈ تک کی ادائیگی کی جا سکتی ہے، لیکن صرف ان کیسز میں جہاں فرد کو کم از کم 60 فیصد معذوری ہو چکی ہو۔ اس پیمانے پر نہ آنے والے ہزاروں دعوے مسترد کیے جا چکے ہیں۔
مزید پڑھیں: چین میں کورونا جیسا نیا وائرس دریافت: سائنسدان کیا کہتے ہیں؟
ویکسین بنانے والی کمپنی فائزر کے ترجمان نے کہا ہے کہ مریضوں کی حفاظت ان کی اولین ترجیح ہے اوروہ کسی بھی منفی اثرات کی رپورٹس کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ تاہم، یہ ضروری ہے کہ ویکسین کے بعد پیش آنے والے ہر واقعے کو ویکسین سے جوڑنے کے بجائے سائنسی بنیادوں پر پرکھا جائے۔
واضح رہے کہ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس سنڈروم کے شواہد مضبوط نہ ہوئے، تو یہ ویکسین کے خلاف غیر ضروری خوف پیدا کر سکتا ہے، جو مستقبل میں ویکسینیشن مہمات کی کامیابی کو متاثر کرے گا۔