جنگلی حیات کرۂ ارض کے فطری نظام میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، مگر ماحولیاتی تبدیلیوں، جنگلات کی تیزی سے کٹائی، غیر قانونی شکار اور بڑھتی انسانی سرگرمیوں کے باعث یہ شدید خطرات سے دوچار ہے۔
عالمی یومِ حیاتِ وحش کے موقع پر یہ سوال اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ ہم بطور انسان اپنی ذمہ داریاں کیسے نبھائیں اور اس قدرتی ورثے کو بچانے کے لیے کیا اقدامات کیے جائیں؟
دنیا بھر میں جنگلی حیات کا فطری ماحول کے توازن میں بنیادی کردار ہے۔ حیاتیاتی تنوع (بائیو ڈائیورسٹی) کسی بھی خطے کے ماحولیاتی استحکام کے لیے ناگزیر ہے۔ پاکستان میں جنگلی حیات کی متعدد اقسام پائی جاتی ہیں، جن میں برفانی چیتے، مارخور، انڈس ڈولفن، ہوبارا بسٹرڈ، اور دیگر نایاب جانور شامل ہیں۔ تاہم، ان کی بقا مختلف خطرات سے مشروط ہو چکی ہے۔
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) پاکستان کے مطابق ملک میں متعدد اقسام کے جانور اور پرندے معدومی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔ غیر قانونی شکار، اسمگلنگ، اور قدرتی مساکن کی تباہی اس بحران کو مزید سنگین بنا رہی ہے۔
ماہرِ ماحولیات ڈاکٹر جہانزیب نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا ہے کہ “پاکستان میں جنگلی حیات کو سب سے بڑا خطرہ رہائش گاہوں کی تباہی اور غیر قانونی شکار ہے۔ جنگلات کی بے دریغ کٹائی اور بڑھتی ہوئی انسانی آبادی جنگلی حیات کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ اگر ان مسائل پر فوری توجہ نہ دی گئی تو کئی نایاب جانور معدوم ہو سکتے ہیں۔”
پاکستان میں تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور بے ہنگم ترقی کے نتیجے میں جنگلات سکڑتے جا رہے ہیں۔ خیبرپختونخوا اور گلگت بلتستان کے پہاڑی علاقوں میں غیر قانونی کٹائی کے باعث نایاب جنگلی جانوروں کی رہائش گاہیں ختم ہو رہی ہیں۔

ایسے حالات کی وجہ سے یہ جانور اپنی رہائش گاہیں چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اور ہجرت کرتے ہیں اور بعض اوقات بدقسمتی سے وہ شہروں یا ایسے علاقوں میں پہنچ جاتے ہیں جہاں محض چند منٹوں میں ان کا شکار کر لیا جاتا ہے۔
دوسری جانب اگر خوش قسمتی سے کوئی بچ جاتا ہے تو رہی سہی کسر وائلڈ لائف انھیں اپنی تحویل میں لے کر پوری کر دیتی ہے۔
موسمیاتی تبدیلیاں بھی جنگلی حیات پر شدید اثر ڈال رہی ہیں۔ درجہ حرارت میں اضافے اور بارشوں کے غیر متوقع پیٹرن کے باعث کئی اقسام کی افزائشِ نسل متاثر ہو رہی ہے۔ خاص طور پر پاکستان میں پائے جانے والے برفانی چیتے کے مسکن تیزی سے ختم ہو رہے ہیں، جس سے اس کی بقا خطرے میں پڑ گئی ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جنگلی حیات کو خطرہ ہے کہ نہیں پر ڈاکٹر جہانزیب کا کہنا تھا کہ موسمیاتی تبدیلیاں پاکستان کی جنگلی حیات پر گہرا اثر ڈال رہی ہیں۔ درجہ حرارت میں اضافے اور غیر متوقع بارشوں کی وجہ سے کئی جانوروں اور پرندوں کی افزائش اور ہجرت کے طریقے متاثر ہو رہے ہیں۔ خاص طور پر برفانی تیندوا اور دریائی حیات خطرے میں ہیں۔
پاکستان میں ہوبارا بسٹرڈ، مارخور اور دیگر جنگلی جانوروں کا غیر قانونی شکار اب بھی جاری ہے۔ اگرچہ حکومت نے ہوبارا بسٹرڈ کے شکار پر پابندی عائد کر رکھی ہے، لیکن غیر قانونی شکار اور عرب شکاریوں کی دلچسپی کے باعث یہ پرندہ شدید خطرے میں ہے۔
‘پاکستان میٹرز’ کو ریسرچر جنگلی حیات ڈاکٹر کامران مرزا نے بتایا ہے کہ برفانی تیندوا، ہمالیائی بھورا ریچھ، انڈس ڈولفن اور سائبیرین کرین جیسے جانور شدید خطرے سے دوچار ہیں۔ ان کی رہائش گاہوں میں کمی اور غیر قانونی شکار ان کے وجود کو خطرے میں ڈال رہے ہیں۔

دریاؤں اور سمندروں میں بڑھتی ہوئی آلودگی بھی جنگلی حیات کے لیے مہلک ثابت ہو رہی ہے۔ دریائے سندھ میں آلودگی کے باعث انڈس ڈولفن کی تعداد میں خطرناک حد تک کمی واقع ہو چکی ہے، جبکہ سمندری حیات بھی پلاسٹک اور کیمیکل ویسٹ کے سبب متاثر ہو رہی ہے۔
محکمہ جنگلات کے مطابق بنیادی طور پر نیشنل پارکس کو جو خطرات لاحق ہیں، ان میں سب سے بڑا خطرہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے۔ انسانی آبادی بڑھنے سے جانوروں کے لیے جگہ کم ہوتی جا رہی ہے اور ان کی خوراک کا مسئلہ بھی پیدا ہو رہا ہے۔
پاکستان نے جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے متعدد بین الاقوامی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں، جن میں کنونشن آن انٹرنیشنل ٹریڈ ان انڈینجرڈ اسپیشیز اور بون کنونشن شامل ہیں۔
ڈاکٹر جہانزیب کا کہنا ہے کہ حکومت نے جنگلی حیات کے غیر قانونی شکار کو روکنے کے لیے سخت قوانین بنائے ہیں۔ مختلف علاقوں میں اہلکار اور وائلڈ لائف افسران تعینات کیے ہیں۔ تاہم عمل درآمد کا فقدان اور کرپشن کی وجہ سے یہ اقدامات مکمل طور پر مؤثر ثابت نہیں ہو رہے۔
حکومتِ پاکستان نے مارخور اور برفانی چیتے جیسے نایاب جانوروں کے تحفظ کے لیے متعدد نیشنل پارکس اور وائلڈ لائف سینکچوریز قائم کیے ہیں۔ تاہم، ان اقدامات پر مؤثر عملدرآمد کی ضرورت ہے۔
ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ ، انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر اور دیگر تنظیمیں پاکستان میں جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے کام کر رہی ہیں۔ مقامی کمیونٹیز کو بھی اس حوالے سے شامل کیا جا رہا ہے، تاکہ وہ اپنے علاقوں میں نایاب جانوروں کے شکار کو روکنے میں مددگار ثابت ہوں۔
ماہرِ ماحولیات کے مطابق موجودہ قوانین کسی حد تک جنگلی حیات کے تحفظ میں مددگار تو ہیں مگر ان پر سختی سے عمل درآمد نہیں ہوتا۔ غیر قانونی شکار اور اسمگلنگ کے مجرموں کو سخت سزائیں دی جائیں۔ اس کے ساتھ وائلڈ لائف پروٹیکشن ایکٹ میں مزید ترامیم کی جائیں۔
دوسری جانب ریسرچر جنگلی حیات نے کہا ہے کہ میڈیا اور تعلیمی ادارے عوام کو جنگلی حیات کے تحفظ کے بارے میں آگاہ کر سکتے ہیں۔ ٹی وی، سوشل میڈیا، اور ڈاکیومنٹری فلموں کے ذریعے شعور بیدار کیا جا سکتا ہے، جبکہ اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں ماحولیات اور حیاتیاتی تنوع پر مضامین شامل کیے جانے چاہییں۔

سب سے اہم پہلو عوام میں آگاہی پیدا کرنا ہے۔ تعلیمی اداروں میں جنگلی حیات کے تحفظ پر سیمینارز اور ورکشاپس کا انعقاد ہونا چاہیے تاکہ نوجوان نسل اس مسئلے کی سنگینی کو سمجھ سکے۔
ریسرچر جنگلی حیات کا پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ عام شہری جنگلی حیات کے تحفظ میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ وہ شکار اور اسمگلنگ کی اطلاع متعلقہ حکام کو دے سکتے ہیں۔ ماحول دوست طرزِ زندگی اپنا سکتے ہیں اور جنگلات کے تحفظ میں مدد کر سکتے ہیں۔ مگر اس سب کے لیے شہریوں کی تربیت بہت ضروری ہے۔
ہمیں اپنی روزمرہ کی زندگی میں ایسے طریقے اپنانے چاہئیں جو قدرتی ماحول پر کم سے کم اثر ڈالیں، جیسے پلاسٹک کے استعمال میں کمی، درختوں کی کٹائی روکنا اور جنگلات کے تحفظ کے لیے سرگرم ہونا۔
مستقبل کے حوالے سے پیش گوئی کرتے ہوئے ڈاکٹر کامران مرزا کا کہنا تھا کہ اگر جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات نہ کیے گئے تو پاکستان میں کئی نایاب نسلیں معدوم ہو سکتی ہیں۔ اس کا اثر پورے ماحولیاتی نظام پر پڑے گا جس کے نتیجے میں قدرتی توازن بگڑ جائے گا اور زرعی پیداوار بھی متاثر ہو سکتی ہے۔
ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے حکومتی پالیسیوں اور غیر سرکاری تنظیموں کی کوششوں کی حمایت کریں۔ اگر کہیں غیر قانونی شکار یا جانوروں کی اسمگلنگ ہو رہی ہو تو متعلقہ اداروں کو اطلاع دینا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔
ڈاکٹر جہانزیب نے کہا ہے کہ مقامی کمیونٹیز جنگلی حیات کے تحفظ میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہیں۔ اگر لوگوں کو اس بات کی آگاہی دی جائے کہ جنگلی جانور ان کے ماحولیاتی نظام کے لیے کتنے ضروری ہیں تو وہ خود شکار اور غیر قانونی تجارت کے خلاف کھڑے ہو سکتے ہیں۔
دوسری جانب ڈاکٹر کامران مرزا نے کہا ہے کہ پاکستان نے جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے عالمی معاہدوں پر دستخط کیے ہیں مگر عملی سطح پر مزید کوششوں کی ضرورت ہے۔ بین الاقوامی ماحولیاتی تنظیموں کے ساتھ مل کر پراجیکٹس پر کام کیا جائے تو زیادہ مؤثر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔
یاد رہے کہ جنگلی حیات کا تحفظ صرف حکومت یا چند تنظیموں کی ذمہ داری نہیں، بلکہ ہر فرد کو اس میں اپنا کردار ادا کرنا اہم ہے۔ ماحولیاتی توازن کو برقرار رکھنے کے لیے جنگلی حیات کا تحفظ ناگزیر ہے۔
اگر ہم نے آج اقدامات نہ کیے تو ہماری آئندہ نسلیں ایک ایسے ماحول میں رہنے پر مجبور ہوں گی جہاں قدرتی حسن، حیاتیاتی تنوع اور نایاب جانور محض کتابوں میں ملیں گے، جیسا کہ احمد فراز نے کہا تھا کہ
اب کہ ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئےپھول کتابوں میں ملیں
یہ وقت ہے کہ ہم سب مل کر اپنی جنگلی حیات کو محفوظ بنانے کا عزم کریں، کیونکہ فطرت کی بقا ہی درحقیقت ہماری بقا ہے۔