امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یوکرین کو فوجی امداد روکنے کے فیصلے نے عالمی سطح پر ہلچل مچا دی ہے۔ یہ اقدام یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کے ساتھ ہونے والی حالیہ کشیدگی کے بعد سامنے آیا، جس نے دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں ایک نئی دراڑ پیدا کر دی ہے۔
اس فیصلے پر مختلف عالمی رہنماؤں اور سیاستدانوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا، جس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ فیصلہ نہ صرف یوکرین بلکہ عالمی سیاست پر بھی گہرا اثر ڈالے گا۔
یوکرین کے وزیر اعظم ‘ڈینس شمہال’ نے اس فیصلے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ “ہمارے پاس اپنے وسائل اور صلاحیتیں موجود ہیں، جو جنگ کے محاذ پر ہماری مدد کر سکتی ہیں۔”
ان کا کہنا تھا کہ یوکرین اپنے اتحادیوں کے ساتھ تمام دستیاب چینلز کے ذریعے پُرامن طریقے سے کام جاری رکھے گا۔
یوکرینی صدر زیلنسکی نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ “ہمیں یہ یاد ہے کہ جرمنی یوکرین کو فضائی دفاعی نظام فراہم کرنے میں قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے اور ہمارے مالی استحکام کے لیے بھی اہم ہے۔”
مزید پڑھیں: روس کا ایران کے جوہری پروگرام پر امریکا کے ساتھ تعاون کا اعلان
یوکرینی پارلیمنٹ کے خارجہ امور کمیٹی کے سربراہ ‘اولیکسانڈر مریژکو’ نے اس فیصلے کو سنگین قرار دیتے ہوئے کہا کہ “یہ اقدام بظاہر ہمارے لیے انتہائی نقصان دہ ہے اور ایسا لگتا ہے کہ ٹرمپ ہمیں روس کے سامنے سرینڈر کرنے کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ امداد روکنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم روس کے مطالبات کو تسلیم کر لیں گے۔”
دوسری جانب کریمیا کے ترجمان ‘دمتری پیسکوف’ نے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ “اگر یہ خبر حقیقت ہے تو یہ یوکرینی حکومت کے لیے امن کے عمل کی طرف بڑھنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔ امریکا ہمیشہ اس جنگ کا سب سے بڑا ہتھیار فراہم کرنے والا ملک رہا ہے، اور اگر وہ امداد روک دیتا ہے، تو یہ امن کے قیام کی طرف ایک بہت اہم قدم ہوگا۔”
پیسکوف نے مزید کہا کہ “ہم ٹرمپ کے امن لانے کے بیان کا خیرمقدم کرتے ہیں، مگر ہمیں اس کا عملی طور پر مظاہرہ دیکھنا ہوگا۔”
امریکی سینیٹر جین شیہین نے اس فیصلے پر سخت الفاظ میں تنقید کی اور کہا کہ “یوکرین کو فوجی امداد روکنے سے صدر ٹرمپ نے پوتن کو مزید جنگی جارحیت کی اجازت دے دی ہے، جو بے گناہ یوکرینیوں کے لیے تباہ کن ثابت ہوگا۔”
انہوں نے اس قدم کے عالمی اثرات پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ اقدام پوتن کی حمایت کو مزید تقویت دے گا۔
یہ بھی پڑھیں: ایران اور ترکیہ میں سفارتی کشیدگی، دمشق کی استحکام پر متنازع بیانات
یورپی کمیشن کی صدر ‘ارثولا وان ڈیر لیین’ نے عالمی سطح پر اس صورتحال کی سنگینی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ “ہم انتہائی خطرناک وقت میں جی رہے ہیں اور یورپ اپنی دفاعی اخراجات کو بہت تیزی سے بڑھانے کے لیے تیار ہے۔”
اسی طرح جرمن وزیر خارجہ ‘اینالینا بیربوک’ نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ “یوکرین کی حمایت میں مزید فوجی اور مالی امداد فراہم کرنا ضروری ہے تاکہ ہم اپنے آزادی کے دفاع کو مضبوط بنا سکیں۔”
پولینڈ کے وزیر اعظم ڈونلڈ ٹسک نے ٹویٹر پر کہا کہ “یوکرین کی خودمختاری اور اس کا مغربی راستہ پولینڈ کے لیے اہم ہے۔ اس بدترین سیاسی ہلچل اور بڑھتے ہوئے بحران کے درمیان یہی سب سے اہم چیز ہے۔”
برطانوی حکومت نے اپنے موقف میں کہا کہ “ہم یوکرین کے لیے پائیدار امن کے قیام میں مکمل طور پر مخلص ہیں اور اس مقصد کے لیے اپنے اہم اتحادیوں کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔”
لازمی پڑھیں: یورپی ممالک ’یوکرین امن منصوبہ‘ امریکا کو پیش کریں گے
فرانس کے وزیر برائے یورپ ‘بنجمن ہیڈڈاڈ’ نے کہا کہ “اگر آپ امن چاہتے ہیں تو کیا یوکرین کو ہتھیاروں کی سپلائی روکنا امن کے قیام میں مدد دے گا؟ یہ فیصلہ روس کے ہاتھوں کو مضبوط کرے گا، جو کہ صرف جنگ کو بڑھائے گا۔”
اس کے علاوہ ڈنمارک کے وزیر دفاع ‘ٹرولس لنڈ پولسن’ نے کہا کہ “یوکرین کو کچھ اہم امریکی ہتھیاروں کی ضرورت ہے، خاص طور پر پیٹریاٹ میزائل دفاعی نظام، جس پر اب یورپ کو مزید اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہوگی۔”
چیک وزیر اعظم پیٹر فیالا نے کہا کہ “یورپ کو اپنی دفاعی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے مزید سرمایہ کاری کرنی ہوگی اور یوکرین کی مکمل حمایت فراہم کرنی ہوگی۔”
ان کا کہنا تھا کہ “ہمیں روس کی جارحانہ پالیسی کے آگے سرنڈر نہیں کرنا چاہیے۔”
ضرور پڑھیں: ٹرمپ ڈٹ گئے، میکسیکو اور کینیڈا پر عائد 25 فیصد ٹیرف پرعمل درآمد شروع
دوسری جانب ہنگری کی حکومت کے ترجمان نے کہا کہ “امریکی صدر اور ہنگری کی حکومت دونوں کی یہ مشترکہ رائے ہے کہ اس جنگ کو مزید اسلحے کی سپلائی کے بجائے جنگ بندی اور امن مذاکرات کی طرف بڑھنا چاہیے۔”
ٹرمپ کے اس فیصلے نے نہ صرف یوکرین کے لیے مشکلات بڑھا دی ہیں، بلکہ عالمی سطح پر بھی اس پر شدید ردعمل سامنے آیا ہے۔ مختلف ممالک اس صورتحال کے حل کے لیے اپنی حمایت اور موقف کا اظہار کر رہے ہیں، اور یہ معاملہ عالمی سیاست میں ایک اہم موڑ لے آیا ہے۔