اپریل 10, 2025 11:29 شام

English / Urdu

Follw Us on:

ڈیفالٹ سے اڑان منصوبے تک کا سفر، کیا حقیقت میں پاکستان معاشی ترقی کررہا ہے؟

مادھو لعل
مادھو لعل

پاکستان میں 8 فروری 2024 کے عام انتخابات کے بعد 4 مارچ کو وجود میں آنے والی اتحادی حکومت کے ایک سال مکمل ہونے پروزیرِاعظم شہباز شریف نے اپنے ایک سالہ دور حکومت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک سال میں ملک معاشی استحکام آیا لیکن سفر ابھی طویل اور مشکل ہے، جسے طے کرنا ہے۔

شہباز حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ ان کے پہلے سال میں معیشت مستحکم ہوئی ہے اور ملک کو ڈیفالٹ سے نکالا گیا۔  اتحادی حکومت کے ایک سال مکمل ہونے پر مختلف وزراء نے  اپنی وزارتوں کی کارکردگی رپورٹس پیش کیں۔ وزیرِ دفاع خواجہ آصف، وزیرِ منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال اور وزیرِ مملکت برائے آئی ٹی شزا فاطمہ سمیت دیگر وزراء نے حکومتی کارکردگی پر روشنی ڈالی۔

پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ماہر سیاست ڈاکٹر شفاقت علی کا کہنا تھا کہ “پاکستان کے ڈیفالٹ نہ کرنے میں حکومت کے معاشی اقدامات کے ساتھ ساتھ آئی ایم ایف کی مالی معاونت اور دوست ممالک کی سپورٹ کا بھی بڑا کردار ہے۔ اگرچہ معیشت میں وقتی استحکام آیا ہے، مگر اس کو پائیدار بنانے کے لیے طویل مدتی اصلاحات درکار ہیں۔ صرف اعداد و شمار کی بنیاد پر معاشی بہتری کا دعویٰ کرنا کافی نہیں ہوگا۔”

اس کے علاوہ وفاقی وزیرِ دفاع خواجہ آصف  نے خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ  حکومتی اقدامات سے تمام اداروں کا ترقی کا سفر جاری ہے، ہم نے مشکل حالات میں حکومت سنبھالی، پی ٹی آئی نے ملک میں انتشار بھیلایا۔ ہر قسم کی دہشتگردی کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ مثبت تنقید کا خیر مقدم کرتے ہیں۔

وفاقی وزیرِ منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال نے اپنی وزارت کی ایک سالہ کارکردگی پر خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2018 میں اگر ترقی کا راستہ نہ روکا جاتا تو پاکستان آج بڑی معیشتوں میں شامل ہوتا۔ اڑان پاکستان منصوبے کے تحت ملکی ترقی کا پروگرام دوبارہ شروع کیا ہے۔

ڈاکٹر شفاقت علی کا کہنا تھا “کہ حکومتی اخراجات میں کمی یقینی طور پر ایک اچھا اقدام ہے۔ مگر بڑے پیمانے پر نوکریوں کا خاتمہ بیروزگاری کو مزید بڑھا سکتا ہے خاص طور پر جب نجی شعبہ اتنی نوکریاں پیدا کرنے سے قاصر ہو۔ اس فیصلے کے باعث عام شہریوں پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جس کے لیے متبادل روزگار کے مواقع پیدا کرنا ضروری ہے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ ” افراطِ زر میں کمی ایک مثبت پیش رفت ضرور ہے لیکن اس کی بڑی وجہ عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی اور زرِ مبادلہ کے ذخائر میں وقتی اضافہ ہے۔ جی ڈی پی گروتھ ابھی بھی خطے کے دیگر ممالک سے کم ہے اور صنعتی و زرعی پیداوار میں مطلوبہ بہتری نہیں دیکھی گئی جو کہ طویل مدتی ترقی کے لیے ضروری ہے۔”

دوسری جانب احسن اقبال نے کہا ہے کہ پی ڈی ایم نے حکومت سنبھالی تو ملک ڈیفالٹ کے قریب تھا۔ 2018 کے بعد سی پیک کے منصوبوں کو نقصان پہنچایا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ سی پیک کے دوسرے مرحلے پر کام کا آغاز اب ہو گیا ہے۔ سی پیک منصوبے کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری آئی ہے۔امن، استحکام اور پالیسیوں کے تسلسل کے بغیر ترقی ممکن نہیں ہے۔

وفاقی وزیر شزا فاطمہ نے کہا ہے آئی ٹی کے شعبے کی بہتری پر توجہ مرکوز ہے۔ گزشتہ ایک سال میں موبائل فون کی مقامی مینو فیکچرنگ میں اضافہ ہوا ہے۔ دوردراز کے علاقوں میں انٹرنیٹ کی فراہمی یقینی بنائی گئی ہے۔

شزا فاطمہ کا کہنا ہے کہ انٹرنیٹ کی سپیڈ کے لیے تین سب میرین کیبل بچھائی گئی ہیں۔ آئی ٹی کے شعبے کی برآمدات دو ارب ڈالر تک پہنچ چکی ہیں۔ ای گورنمنٹ کے عالمی انڈیکس میں پاکستان کی 14 درجے بہتری ہوئی ہے۔ دوسرے ممالک کے ساتھ آئی ٹی کے شعبے میں مختلف معاہدے کیے گئے، حکومتی اقدامات سے ای گورننس میں بہتری آئی ہے۔

ڈاکٹر شفاقت علی کا کہنا ہے “کہ حکومتی اخراجات میں کمی یقینی طور پر ایک اچھا اقدام ہے۔ مگر بڑے پیمانے پر نوکریوں کا خاتمہ بیروزگاری کو مزید بڑھا سکتا ہے خاص طور پر جب نجی شعبہ اتنی نوکریاں پیدا کرنے سے قاصر ہو۔”

انہوں نے مزید کہا کے “اس فیصلے کے باعث عام شہریوں پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جس کے لیے متبادل روزگار کے مواقع پیدا کرنا ضروری ہے۔”

حکومت کے معاشی ترقی اور غربت کے خاتمے کے نت نئے بیانات نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ کیا واقعی ملکی اشاریے بہتری کی سمت میں گامزن ہیں یا پھر یہ محض سیاسی بیانیے ہیں۔

اینکر پرسن اسامہ بن عبید (ماہر سیاست) نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “قانون سازی جمہوری نظام کا لازمی جزو ہے مگر پاکستان میں قوانین پر مؤثر عملدرآمد ہمیشہ ایک چیلنج رہا ہے۔ کئی بلز محض کاغذی کارروائی تک محدود رہتے ہیں جب تک ان کے نفاذ کے لیے ٹھوس عدالتی اور انتظامی اقدامات نہ کیے جائیں۔”

انہوں نے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ “پالیسی اصلاحات کا اصل امتحان ان کا عملی نفاذ اور تسلسل ہے۔ ماضی میں بھی حکومتیں بڑے بڑے دعوے کرتی رہی ہیں۔ لیکن پالیسیوں میں عدم تسلسل ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر معاشی اور ادارہ جاتی اصلاحات جاری نہ رہیں تو یہ تمام بیانات محض سیاسی نعرے ہی ثابت ہوں گے۔”

ورلڈ اکنامک فورم کے نیو اکانومی اینڈ سوسائٹیز پلیٹ فارم کے مطابق حکومت نے 11 ماہ میں 120 سے زائد اصلاحات متعارف کرائیں۔ افراطِ زر 38 فیصد سے کم ہو کر 4.1 فیصد پر آ گیا۔زرمبادلہ کے ذخائر 4.4 بلین ڈالر سے بڑھ کر 11.73 بلین ڈالر ہو گئے۔

گزشتہ ایک سال میں جی ڈی پی گروتھ 0.29 فیصد سے بڑھ کر 2.38 فیصد ہو گئی، 2025 میں 3.5 فیصد کا ہدف رکھا گیا ہے۔ تجارتی خسارہ 27.47 بلین ڈالر سے کم ہو کر 17.54 بلین ڈالر ہو ا ہے۔  حکومت نے 150,000 وفاقی ملازمتیں ختم کر کے حکومتی اخراجات میں کمی کی ہے۔

اتحادی حکومت نے ایک سال میں سعودی عرب کے ساتھ 2.8 بلین ڈالر کے 34 معاہدے کیے ہیں۔ چین کے وزیرِاعظم نے پاکستان کا دورہ کیا اورگوادر ایئرپورٹ کا ورچوئل افتتاح کیا، جس کے بعد سی پیک کے دوسرے فیز کا آغاز ہوا۔

حالیہ مہینوں کے ترک صدر اور یو اے ای کے ولی عہد کے دوروں میں کئی اہم معاہدوں اور یادداشتوں پر دستخط کیے گئے۔

موجودہ حکومت کے ایک سال میں نیشنل فارنزک اینڈ سائبر کرائم ایجنسی قائم کی گئی،178 وفاقی عدالتوں میں ڈیجیٹل کیس فلو مینجمنٹ سسٹم نافذ کیا گیا اورنیشنل رجسٹریشن اور بائیو میٹرک پالیسی کا نفاذ بھی کیا گیا۔

پاکستان کلائمیٹ چینج اتھارٹی قائم کی گئی، جس کے تحت ملک بھر میں 67.5 ملین درخت لگائے گئے۔ مزید یہ کہ خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے لیے قومی پالیسی منظور کی گئی۔

اسامہ بن عبید نے مزید کہا کہ ” درخت لگانا ایک مثبت اقدام ہے مگر اصل چیلنج ان کی دیکھ بھال اور پائیدار ماحولیاتی منصوبہ بندی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے پانی کے ذخائر، قابلِ تجدید توانائی اور صنعتوں کی ماحولیاتی مطابقت پر بھی کام کرنا ہوگا۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو یہ اقدامات علامتی حد تک ہی محدود رہیں گے۔”

انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ “پیکا ایکٹ میں ترامیم سے اظہارِ رائے پر مزید قدغنیں لگنے کا خدشہ ہے۔ اس سے صحافیوں اور ڈیجیٹل میڈیا پلیٹ فارمز پر دباؤ بڑھ سکتا ہے۔ حکومت کو آزادیِ صحافت اور قومی سلامتی میں توازن رکھنا ہوگا ورنہ عالمی سطح پر پاکستان کی رینکنگ مزید متاثر ہو سکتی ہے۔”

اتحادی حکومت کے ایک سال میں قومی اسمبلی نے  51 بلز منظور کیے، جن میں 26ویں آئینی ترمیم بھی شامل ہے۔قومی اسمبلی نے عدالتی اصلاحات کے لیے 26ویں آئینی ترمیم منظور کی، الیکٹرانک کرائم کے خاتمے کے لیے ‘ڈیجیٹل نیشن پاکستان ایکٹ 2025’ متعارف کرایا گیا ہے۔

پاکستان آرمی، نیوی اور ایئر فورس ایکٹس میں ترمیم، سروسز چیفس کی مدتِ ملازمت 5 سال کی گئی۔دینی مدارس کی رجسٹریشن کا بل منظورکیا گیا، جس کے تحت تمام مدارس کو اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ  6 ماہ میں رجسٹریشن کروائیں۔

پیکا ایکٹ ترمیم سے ملک میں ‘صحافت کی آزادی’ پر سوال اٹھا ہے، جس کے بعد سے وکلاء اور صحافتی تنظیموں کی جانب سے کئی ہڑتالیں اور بائیکاٹ دیکھنے کو ملے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا حکومت کیے گئے سیاسی بیانیے پوری کرنے میں کامیاب ہوتی ہے یا پھر پچھلی حکومتوں کی طرح نا اہلی کا بل پچھلی حکومت پر ڈال کر ہاتھ جھٹک دیتی ہے۔

مادھو لعل

مادھو لعل

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس