منگل کے روز عرب رہنماؤں نے غزہ کے لیے ایک مصری تعمیر نو کے منصوبے کو اپنایا، جس پر 53 بلین ڈالر لاگت آئے گی۔ یہ منصوبہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ رویرا کے وژن کے برعکس ہے اور اس کا مقصد فلسطینیوں کو غزہ سے بے گھر ہونے سے بچانا ہے۔
وائٹ ہاؤس نے عرب ریاستوں کے اس منصوبے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ غزہ کی حقیقی صورتحال کا حل نہیں ہے اور ٹرمپ اپنی تجویز پر قائم ہیں۔
گزشتہ ماہ، ٹرمپ کے اس منصوبے کو عالمی سطح پر مذمت کا سامنا کرنا پڑا تھا، کیونکہ اس میں فلسطینیوں کو مستقل طور پر ان کے گھروں سے بے دخل کرنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا۔
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے اعلان کیا کہ ان کا منصوبہ قاہرہ میں ہونے والے سربراہی اجلاس کے دوران قبول کر لیا گیا ہے۔ حماس نے اس تجویز کا خیرمقدم کیا، جبکہ اسرائیل اور امریکا نے اس پر تنقید کی۔ سیسی نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ ٹرمپ امن کے حصول میں کامیاب ہوں گے، کیونکہ غزہ اسرائیلی حملے کے نتیجے میں تباہ ہو چکا ہے۔

غزہ کے مستقبل کے حوالے سے اہم سوالات میں شامل ہے کہ اس علاقے کا انتظام کون سنبھالے گا اور تعمیر نو کے لیے درکار اربوں ڈالر کون فراہم کرے گا۔ سیسی نے کہا کہ مصر نے فلسطینیوں کے ساتھ مل کر ایک آزاد، پیشہ ور فلسطینی ٹیکنوکریٹس کی انتظامی کمیٹی تشکیل دی ہے، جو غزہ پر حکمرانی کے لیے تیار کی جا رہی ہے۔ یہ کمیٹی فلسطینی اتھارٹی (PA) کی واپسی کے لیے راہ ہموار کرے گی اور انسانی امداد کی نگرانی کرے گی۔
ایک اور بڑا مسئلہ حماس کا مستقبل ہے، جو 2007 سے غزہ پر حکمرانی کر رہی ہے۔ 7 اکتوبر 2023 کو، حماس نے اسرائیل پر حملہ کیا تھا، جس میں 1,200 افراد ہلاک ہوئے اور 250 سے زیادہ کو یرغمال بنایا گیا۔ اس کے بعد اسرائیل نے غزہ پر شدید فوجی حملہ کیا، جس میں مقامی وزارت صحت کے مطابق، 48,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اس جنگ نے غزہ کی تقریباً پوری آبادی کو بے گھر کر دیا ہے اور اسرائیل پر نسل کشی اور جنگی جرائم کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں، جن کی اسرائیل تردید کرتا ہے۔
حماس نے بیان جاری کیا کہ وہ مصری کمیٹی کی تجویز سے متفق ہے اور اس میں امیدوار کھڑا نہیں کرے گی۔ تاہم، حماس نے اس بات پر زور دیا کہ اسے کمیٹی کے ارکان، اس کے کاموں اور ایجنڈے کی منظوری حاصل ہونی چاہیے، جو فلسطینی اتھارٹی کے تحت کام کرے گی۔
مصری وزیر خارجہ بدر عبدلطی نے اعلان کیا کہ کمیٹی میں شامل افراد کے ناموں کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ فلسطینی صدر محمود عباس، جو فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ ہیں، نے مصری منصوبے کا خیرمقدم کیا اور ٹرمپ پر زور دیا کہ وہ ایسے کسی بھی منصوبے کی حمایت نہ کریں، جس میں فلسطینیوں کی بے دخلی شامل ہو۔