انڈیا کی جنوبی ریاستوں کے اپوزیشن سیاست دانوں نے بدھ کے روز وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت کے اس منصوبے کے خلاف احتجاج کیا، جس کے تحت 2011 کی مردم شماری کی بنیاد پر حلقہ بندیوں کی دوبارہ ترتیب کی جائے گی۔ جنوبی ریاستوں کے رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ اس اقدام سے شمالی ریاستوں کو پارلیمنٹ میں غیر متناسب فائدہ حاصل ہوگا اور وہ زیادہ نشستیں حاصل کر لیں گی، جس سے جنوبی ریاستوں کی سیاسی نمائندگی کمزور پڑ جائے گی۔
یہ احتجاج تمل ناڈو کے وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن کی قیادت میں ہوا، جنہیں پانچ جنوبی ریاستوں میں کانگریس سمیت کئی دیگر سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل تھی۔ جنوبی ریاستوں کے سیاست دانوں کا مؤقف ہے کہ وہ شمال کی نسبت تیز اقتصادی ترقی کر رہے ہیں اور وہاں آبادی میں اضافہ بھی نسبتاً کم ہے، اس لیے حلقہ بندی میں آبادی کو واحد معیار بنانا غیر منصفانہ ہوگا۔
اسٹالن نے اس حوالے سے ایک قرارداد پیش کی، جس میں مطالبہ کیا گیا کہ حلقہ بندی کی بنیاد 1971 کی مردم شماری پر ہی رکھی جائے اور اسے 2056 تک برقرار رکھا جائے، تاکہ کم آبادی والے جنوبی علاقوں کو ان کے ترقیاتی ماڈل کی سزا نہ دی جائے۔
1971 کی مردم شماری کی بنیاد پر ہی انڈیا میں موجودہ 543 پارلیمانی نشستوں کی تشکیل ہوئی تھی، اور جنوبی رہنما چاہتے ہیں کہ یہ جمود برقرار رہے، جب تک کہ ایک ایسا نیا نظام متعارف نہ کرایا جائے جو تمام ریاستوں کو مساوی نمائندگی فراہم کرے۔

ڈی ایم کے پارٹی کے ترجمان نے واضح کیا کہ وہ حلقہ بندی کے خلاف نہیں، لیکن یہ عمل ان ریاستوں کے خلاف نہیں جانا چاہیے جنہوں نے آبادی کنٹرول کرنے کے لیے مؤثر اقدامات کیے ہیں۔ قرارداد میں یہ مطالبہ بھی کیا گیا کہ اگر پارلیمانی نشستوں کی تعداد بڑھائی جاتی ہے تو ایک آئینی ترمیم کے ذریعے تمام ریاستوں کو متناسب نمائندگی دی جائے، تاکہ کسی ایک خطے کو دوسروں پر فوقیت نہ ملے۔
جنوبی ریاستوں کے سیاست دانوں کا الزام ہے کہ مودی حکومت پہلے بھی ان کے ساتھ امتیازی سلوک کر چکی ہے۔ ان کے مطابق وفاقی فنڈز کی تقسیم میں جنوبی ریاستوں کے ساتھ ناانصافی کی جاتی رہی ہے، گرانٹس کی غیر منصفانہ الاٹمنٹ، آبپاشی کے منصوبوں کی اجازت میں تاخیر، اور خشک سالی سے نجات کے خصوصی فنڈز کی عدم فراہمی جیسے مسائل ان کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ مودی حکومت پارلیمنٹ میں ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن وہ اس کے خلاف جدوجہد جاری رکھیں گے۔
انڈیا کے آئین کے مطابق، ہر قومی مردم شماری کے بعد حلقہ بندی کا عمل ہونا لازمی ہے، جو ہر دس سال بعد کیا جاتا ہے۔ تاہم، 2021 میں کورونا وبا کے باعث مردم شماری نہیں ہو سکی، اور بار بار کے مطالبات کے باوجود مودی حکومت نے تاحال نئی مردم شماری کا آغاز نہیں کیا۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق انڈیا کی آبادی 1.21 بلین تھی، جبکہ اب اس کا تخمینہ 1.4 بلین لگایا جا رہا ہے۔ اس کے باوجود پارلیمنٹ کی نشستوں کی تعداد 543 پر برقرار ہے، حالانکہ گزشتہ سال پارلیمنٹ کی نئی عمارت کا افتتاح کیا گیا، جس میں 888 نشستوں کی گنجائش رکھی گئی ہے، جو اس بات کا عندیہ ہے کہ مستقبل میں حد بندی کا عمل ضرور ہوگا۔

مودی حکومت کا کہنا ہے کہ حلقہ بندی کے عمل سے جنوبی ریاستوں کو نقصان نہیں پہنچے گا۔ وزیر داخلہ امیت شاہ نے حال ہی میں کہا کہ حکومت تمام ریاستوں کے ساتھ مساوی سلوک کرے گی اور کسی بھی خطے کو نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔ تاہم، بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے اسٹالن کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے الزام لگایا کہ وہ شمال اور جنوب کے درمیان غیر ضروری تقسیم پیدا کر رہے ہیں۔
بی جے پی کو سب سے زیادہ آبادی والی ریاست اتر پردیش میں اقتدار حاصل ہے، جبکہ اس کی اتحادی جماعت بہار میں حکومت کر رہی ہے۔ یہ دونوں ریاستیں انڈیا کی سب سے غریب ریاستوں میں شمار ہوتی ہیں، لیکن ملک کی مجموعی آبادی کا تقریباً 26 فیصد حصہ رکھتی ہیں۔ اگر حلقہ بندی کا عمل 2011 کی مردم شماری کی بنیاد پر ہوتا ہے تو ان ریاستوں کی پارلیمنٹ میں نشستیں بڑھ جائیں گی، جس کا براہ راست فائدہ بی جے پی کو ہوگا اور جنوبی ریاستوں کی نمائندگی نسبتاً کمزور پڑ جائے گی۔
یہ معاملہ انڈیا میں ایک بڑی سیاسی بحث کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ جنوبی ریاستیں اپنی ترقی اور کم آبادی کی پالیسیوں کو ایک کامیابی کے طور پر دیکھتی ہیں، جبکہ شمالی ریاستوں کو پارلیمنٹ میں زیادہ نشستیں دینے کا مطلب ان کی سیاسی حیثیت کو مزید مضبوط بنانا ہوگا۔ اس تناظر میں، آنے والے دنوں میں انڈیا میں شمال اور جنوب کے درمیان سیاسی تنازع مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔