زراعت پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ دیہات میں رہنے والے کسان اس ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، مگر وہ جدید سہولیات سے محروم ہیں۔ قدرتی وسائل جیسے پانی، زمین، سورج کی روشنی اور ہوا زراعت کی ترقی میں بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ فصلوں اور مویشیوں کی پیداوار بڑھانے کے لیے ان وسائل کا تحفظ ضروری ہے تاکہ ایک پائیدار اور فائدہ مند نظام برقرار رکھا جا سکے۔
ایک حالیہ سروے کے مطابق، دنیا کی آبادی 2030 تک 8.5 ارب اور 2050 تک 9.7 ارب تک پہنچ سکتی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق، 2050 تک خوراک کی پیداوار کو 2007 کے مقابلے میں 70 فیصد بڑھانا ہوگا تاکہ بڑھتی ہوئی آبادی کی ضروریات پوری کی جا سکیں۔ اناج کی پیداوار 2.1 ارب ٹن سے بڑھ کر 3 ارب ٹن تک پہنچنے کا امکان ہے۔
قدرتی وسائل کی حفاظت کے لیے جدید طریقے اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس مقصد کے لیے ورٹیکل فارمنگ کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ یہ ایک جدید طریقہ ہے جس میں پودے زمین پر اُگانے کے بجائے اونچائی پر مختلف سطحوں پر کاشت کیے جاتے ہیں۔
ورٹیکل فارمنگ کا آغاز 1999 میں ہوا اور اس نے زراعت میں انقلاب برپا کر دیا۔ اس طریقے سے زمین کے استعمال میں 97 فیصد کمی آتی ہے اور پانی 90 فیصد کم استعمال ہوتا ہے۔ بڑے شہروں میں جگہ کی کمی کے باعث یہ طریقہ زراعت کے لیے بہترین ثابت ہو رہا ہے۔
پاکستان میں خیبر پختونخوا میں ورٹیکل فارمنگ کے ذریعے بڑی مقدار میں ٹماٹر اگائے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ لاہور، کراچی، فیصل آباد اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں بھی یہ طریقہ اپنایا جا رہا ہے۔
ورٹیکل فارمنگ کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے حکومت نے اس کی ترقی کے لیے اقدامات کیے ہیں۔ سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی نے پاکستان میں فوڈ پروسیسنگ پلانٹ کا افتتاح کیا تاکہ خوراک کی حفاظت کو بہتر بنایا جا سکے اور ماحول پر منفی اثرات کم ہوں۔
حکومت نے نجی شعبے کو آرگینک فارمنگ میں سرمایہ کاری کی ترغیب دی ہے۔ اس کے علاوہ زرعی تحقیق کے شعبے میں سرمایہ کاری کی جا رہی ہے تاکہ فصلوں کی پیداوار میں اضافہ ہو اور پانی کا بہتر استعمال ممکن بنایا جا سکے۔