دنیا میں جب بھی کسی خطے میں کشیدگی اور جنگ پروان چڑھتی ہے تو اسلحہ کی ریل پیل میں اضافہ ہوتا ہے، ایسا ہی کچھ روس، یوکرین جنگ میں بھی ہوا ہے جس کے بعد یوکرین دنیا میں اسلحے کا سب سے بڑا درآمد کنندہ بن گیا ہے۔
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (سپری) نے پیر کے روز اپنی سالانہ رپورٹ جاری کی ہے، جس کے مطابق تین سال سے کچھ زیادہ عرصے قبل روس کی جانب سے یوکرین کے خلاف شروع کی گئی جنگ کے بعد اب کیف دنیا کا اسلحے کا سب سے بڑا درآمد کنندہ بن گیا ہے۔
سپری کے مطابق اگر گزشتہ دو پانچ سالہ مدت کا موازنہ کیا جائے تو یوکرین کے ہتھیاروں کے درآمدات میں تقریباﹰ ایک سو گنا اضافہ ہوا ہے چونکہ ہتھیاروں کے درآمدات کے حجم میں اتار چڑھاؤ ہوسکتا ہے۔
اس لیے محققین اس کے مالی قدر کے بجائے اس کی حجم کو بنیاد بناتے ہیں، محققین اپنی رپورٹ میں پانچ سالہ مدت کا موازنہ کرتے ہیں، یوکرین کے معاملے میں یہ موازنہ سن دو ہزار پندرہ، انیس اور سن دو ہزار بیس، چوبیس میں کیا گیا۔
یوکرین اب ٹینک، جنگی طیارے، آبدوزیں اور اسی طرح کے ہتھیاروں جیسے بھاری ہتھیاروں کے کل حجم کا 8.8 فیصد درآمد کرتا ہے۔
پانچ سال کے جائزے کی بنیاد پر، ہتھیار درآمد کرنے والے ملکوں میں بھارت 8.3 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے، اس کے بعد قطر 6.8 فیصد، سعودی عرب 6.8 فیصد اور پاکستان 4.6 فیصد کا نمبر ہے۔
سپری کی رپورٹ کے مطابق یوکرین کے اسلحے کی درآمدات میں کم از کم 35 ممالک نے تعاون کیا ہے جس میں امریکہ نے 45 فیصد ہتھیار برآمد کیے۔ اس کے بعد جرمنی 12 فیصد اور پولینڈ 11کے ساتھ بالترتیب دوسرے اور تیسرے نمبر پر رہے۔

امریکی انتظامیہ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی روسی یوکرینی جنگ ختم کرنے کی مہم کے حصہ کے طور پر حال ہی میں یوکرین کو دی جانے والی فوجی امداد روک دی تھی۔
سپری کے محققین اس وقت امریکی خارجہ پالیسی میں غیریقینی صورتحال دیکھ رہے ہیں۔ اس کی ایک اہم وجہ یورپی ممالک کی طرف سے دفاعی اخراجات میں اضافہ ہے۔
عالمی رجحان کے برعکس پچھلے دو پانچ سالہ ادوار میں یورپی ہتھیاروں کی درآمدات میں 155 فیصد اضافہ ہوا۔
امریکہ اب بھی دنیا بھر میں ہتھیاروں کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے اور اس نے 2020 سے 2024 کے درمیان کل 107 ممالک کو اس کی ترسیل کی ہے۔
سپری کی رپورٹ تیار کرنے والوں میں سے ایک میتھیو جارج نے کہا کہ 43 فیصد کے ساتھ، “اسلحے کی برآمدات کے معاملے میں امریکہ ایک منفرد مقام پر ہے۔
اس کا ہتھیاروں کی عالمی برآمدات میں حصہ دوسرے سب سے بڑے برآمد کنندہ، فرانس سے چار گنا زیادہ ہے۔
دوسری جانب روس نے 2015 اور 2024 کے درمیان 63 فیصد کم ہتھیار برآمد کیے اور 2021 اور 2022 میں کل حجم گزشتہ دو دہائیوں میں سب سے کم تھا لیکن اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں۔
کیونکہ بظاہر یہ ملک پہلے ہی کسی اور جگہ ہتھیار فروخت کرنے کے بجائے جنگ کی تیاری میں خود کو مسلح کر رہا تھا۔
سپری آرمز ٹرانسفر پروگرام کے ایک سینئر محقق پیٹر ویزمین نے کہا کہ جنگ نے وس کے اسلحے کی برآمدات میں کمی کو مزید تیز کر دیا ہے کیونکہ میدان جنگ میں مزید ہتھیاروں کی ضرورت ہے،
جبکہ تجارتی پابندیوں نے روس کے لیے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو اپنے ہتھیاروں کی تیاری اور فروخت کو مشکل بنا دیا ہے۔
ویزمین نے کہا کہ امریکہ اپنے اتحادی ممالک پر دباؤ ڈالتا ہے کہ وہ روسی ہتھیار نہ خریدیں اگر کوئی ملک اب بھی ہتھیار خرید رہا ہے تو وہ بنیادی طور پر چین اور بھارت ہیں۔