گرین لینڈ، جو ڈنمارک کا خود مختار علاقہ ہے 11 مارچ کو پارلیمانی انتخابات کی میزبانی کرے گا جس میں یہاں کی آزادی کا مسئلہ اہم انتخابی موضوع بن چکا ہے۔
اس انتخاب میں امریکا کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کا بھی گہرا اثر محسوس ہو رہا ہے کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گرین لینڈ پر امریکا کا قبضہ حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی تھی۔
گرین لینڈ 1953 میں ڈنمارک کی مملکت کا آفیشل حصہ بن گیا تھا جس میں خارجہ امور دفاعی پالیسی اور مالی امور کی نگرانی کا اختیار ‘کوپن ہیگن’ کے پاس تھا۔ تاہم، 2009 سے گرین لینڈ کو آزادی کی جانب قدم بڑھانے کے لیے ریفرنڈم کا حق حاصل ہے۔ کچھ مقامی افراد اسے آزادی حاصل کرنے کے ایک موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔
رائے شماری کے مطابق گرین لینڈ کے بیشتر باشندے اپنے سابق نوآبادیاتی حکمران سے سیاسی اور اقتصادی آزادی کے حق میں ہیں۔ تاہم، آزادی کی سمت اور اس کے ممکنہ اثرات پر آرا مختلف ہیں خاص طور پر یہ کہ ڈنمارک کی طرف سے سالانہ ایک ارب ڈالر سے زائد کی مالی امداد جزیرے کی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
مزید پڑھیں: حماس اور امریکا کے درمیان دوحہ میں قیدیوں کی رہائی اور جنگ بندی پر مذاکرات
دوسری جانب گرین لینڈ کی معدنی وسائل میں غیر معمولی دولت چھپی ہوئی ہے جن میں قیمتی زمین کے عناصر شامل ہیں جو ابھی تک مکمل طور پر دریافت نہیں ہوئے ہیں۔
امریکی صدر ٹرمپ کے نزدی گرین لینڈ کی جغرافیائی حیثیت اسٹریٹجک طور پر بہت اہم ہے کیونکہ یہ یورپ سے شمالی امریکا جانے کے لیے سب سے مختصر راستہ فراہم کرتا ہے اور امریکی بیلسٹک میزائل وارننگ سسٹم کے لیے ضروری سمجھا جاتا ہے۔
گرین لینڈ کی مجموعی آبادی 57,000 افراد پر مشتمل ہے جن میں سے تقریبا 40,500 اہل ووٹر ہیں جو وزارت داخلہ کے مطابق انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔
پچھلے عام انتخابات میں تقریبا 27,000 افراد نے ووٹ ڈالا تھا۔ گرین لینڈ کی پارلیمنٹ میں 31 نشستیں ہیں جس میں سے 16 نشستوں کی اکثریت حاصل کرنا ضروری ہے۔
11 مارچ کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات صرف گرین لینڈ کے مستقبل کا تعین نہیں کریں گے بلکہ یہ ایک عالمی منظرنامے کا حصہ بھی ہیں جس میں امریکا کی دلچسپی، مقامی سیاست اور معاشی فیصلوں کا پیچیدہ امتزاج دکھائی دیتا ہے۔
اس انتخابات کے نتائج نہ صرف جزیرے کی تقدیر کا فیصلہ کریں گے بلکہ اس کی عالمی طاقتوں کے ساتھ تعلقات کی سمت بھی متعین کریں گے۔
لازمی پڑھیں: کینیڈا سے فینٹینل کی اسمگلنگ پر امریکی اقتصادی مشیر کا بڑا دعویٰ: مارچ کے آخر تک حل کی اُمید