امریکی وزارت خارجہ کے سربراہ ‘مارکو روبیو’ نے پیر کے روز ایک اہم بیان جاری کرتے ہوئے انکشاف کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ نے یو ایس ایڈ (U.S. Agency for International Development) کے 5200 پروگرامز میں سے 80 فیصد کو ختم کر دیا ہے۔
یہ فیصلہ چھ ہفتے کی تفصیلی جائزہ کاروائی کے بعد کیا گیا جس کے نتیجے میں عالمی سطح پر امریکی امدادی پروگرامز میں ایک بڑی تبدیلی آ گئی ہے۔
روبیو نے اپنے ذاتی اکاؤنٹ سے ٹوئٹ کیا جس میں انہوں نے کہا کہ “ان پروگرامز پر خرچ ہونے والی اربوں ڈالرز نے امریکی مفادات کو نقصان پہنچایا اور بعض اوقات تو ان پروگرامز نے ہمارے قومی مفادات کے برخلاف کام کیا۔”
اس عمل کے نتیجے میں صرف ایک ہزار پروگرامز باقی رہ گئے ہیں جنہیں اب وزارت خارجہ کے تحت اور کانگریس کی مشاورت سے “زیادہ مؤثر” انداز میں چلایا جائے گا۔
ٹرمپ انتظامیہ نے جنوری 20 کو دوبارہ اقتدار سنبھالتے ہی غیر ملکی امداد پر 90 دن کی روک لگائی تھی تاکہ اس بات کا جائزہ لیا جا سکے کہ یہ پروگرامز “امریکا فرسٹ” پالیسی کے تحت ہیں یا نہیں۔
مزید پڑھیں: نیٹو کا بوسنیا کے امن معاہدے کی حفاظت کا عہد، علیحدگی پسند قوانین پر شدید ردعمل
اس فیصلے سے امدادی سرگرمیاں عالمی سطح پر معطل ہو گئیں جس کی وجہ سے زندگی بچانے والی غذائی اور طبی امداد کی ترسیل میں خلل آیا۔
عالمی انسانی امدادی تنظیموں نے اس بات پر اعتراض کیا کہ اگرچہ انتظامیہ نے زندگی بچانے والی امداد کے لئے کچھ رعایتیں فراہم کیں مگر عملی طور پر فنڈنگ بند ہی رہی۔
دوسری جانب ہزاروں یو ایس ایڈ کے ملازمین کو عارضی طور پر چھٹی پر بھیج دیا گیا یا پھر فارغ کر دیا گیا اور ان میں سے بیشتر کی واپسی کا امکان نہیں ہے۔
یاد رہے کہ یہ فیصلے وزیر خارجہ ‘مارکو روبیو’ کی قیادت میں کیے گئے ہیں لیکن ایک اور اہم شخصیت اس میں شامل تھی اور وہ تھے ایلون مسک، جو امریکی حکومت میں اصلاحات کے لیے کام کر رہے ہیں۔
روبیو نے اپنے ٹوئٹ میں “ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشنسی” کے عملے کا شکریہ بھی ادا کیا جس کا مقصد امریکی حکومت کو زیادہ مؤثر اور کم خرچ بنانا تھا۔ مسک نے اس حوالے سے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ “یہ فیصلہ سخت تھا، لیکن ضروری تھا۔ یو ایس ایڈ کے اہم حصے ہمیشہ وزارت خارجہ کے ساتھ ہونے چاہئیں تھے۔”
یہ بھی پڑھیں: شام میں بشار الاسد کے وفاداروں کے خلاف آپریشن مکمل، 1,000 سے زائد لوگ جان بحق
ایک اور اہم موڑ اُس وقت آیا جب نیو یارک ٹائمز نے رپورٹ کیا کہ وزیر خارجہ مارکو روبیو اور ایلون مسک کے درمیان ایک کابینہ میٹنگ میں شدید اختلافات ہوئے۔
مسک نے روبیو پر الزام عائد کیا کہ وہ وزارت خارجہ میں عملے کے کٹوتیوں میں ضروری گہرائی نہیں لا رہے۔ اس پر ٹرمپ نے اپنی کابینہ کے اجلاس میں کہا کہ وہ اپنے اداروں میں عملے اور پالیسی پر آخری فیصلہ خود کریں گے، نہ کہ مسک۔
حالیہ دنوں میں ٹرمپ، مسک اور روبیو نے فلوریڈا میں مار-ا-لاگو اسٹیٹ میں ایک عشائیہ میں شرکت کی، جہاں انہوں نے اس تمام معاملے پر بات چیت کی۔
ٹرمپ انتظامیہ کے اس فیصلے کا عالمی سطح پر گہرا اثر پڑا ہے۔ یو ایس ایڈ کے زیادہ تر پروگرامز، جو دنیا بھر میں صحت، تعلیم، غذائی امداد اور دیگر اہم شعبوں میں کام کر رہے تھے، اب غیر فعال ہیں۔
اس سے عالمی امدادی کاموں میں ایک خلا پیدا ہو گا جس کا اثر غریب اور ترقی پذیر ممالک پر پڑ سکتا ہے۔
اگرچہ یو ایس ایڈ کی اصلاحات کا مقصد امریکی مفادات کے مطابق غیر ملکی امداد کو بہتر بنانا ہے مگر اس فیصلے نے عالمی سطح پر امریکا کی امدادی پالیسی کو ایک نئی سمت دی ہے۔
عالمی سطح پر اس فیصلے کا کیا اثر پڑے گا یہ تو وقت ہی بتائے گا، مگر اس نے تمام عالمی تعلقات اور امدادی نظاموں میں ایک نیا چیلنج پیدا کر دیا ہے۔
لازمی پڑھیں: گرین لینڈ کی قسمت کا فیصلہ: 11 مارچ کے انتخابات عالمی سطح پر اہمیت اختیار کر گئے