یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے پیر کے روز سعودی عرب کا دورہ کیا جہاں وہ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان سے ملاقات کریں گے۔
یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب امریکا اور یوکرینی حکام کے درمیان بات چیت کی توقعات بڑھ گئی ہیں جس سے جنگ کے خاتمے کی امیدیں جڑیں ہیں۔
زیلنسکی کا سعودی عرب پہنچنا بین الاقوامی سیاست میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ سعودی عرب نے روس کے 2022 کے حملے کے بعد سے مختلف طریقوں سے جنگ کے خاتمے کی کوشش کی ہے جن میں قیدیوں کا تبادلہ اور ماسکو و واشنگٹن کے درمیان مذاکرات کی میزبانی شامل ہیں۔
امریکا کے لیے یہ بات چیت بہت اہم ہے کیونکہ وائٹ ہاؤس نے یوکرین کے لیے اپنی پالیسی میں بڑی تبدیلی کی ہے۔
واشنگٹن کی جانب سے یوکرین کو فوجی امداد اور انٹیلی جنس شیئرنگ میں کمی کی وجہ سے امریکا نے روس کے ساتھ براہ راست بات چیت شروع کی ہے جس سے یوکرین پر دباؤ بڑھ گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: یو ایس ایڈ کے 5200 پروگرامز میں 80 فیصد کی بندش: عالمی امداد پر گہرے اثرات مرتب
دوسری جانب امریکی حکام کا کہنا ہے کہ انہیں یوکرینی حکام سے بات چیت میں بڑی کامیابی کی امید ہے اور اس امید کا اظہار امریکی صدر کے مشیر اسٹیو وٹکوف نے بھی کیا ہے۔
اسٹیو وٹکوف نے نشریاتی ادارے فاکس نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ “ہمیں امید ہے کہ ہم ان بات چیت میں اہم پیشرفت دیکھیں گے۔”
انہوں نے مزید کہا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یوکرین اور امریکا کے درمیان اقتصادی اور معدنیات سے متعلق معاہدے پر بات چیت میں بھی کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے۔
یوکرین کے لیے ان مذاکرات کا ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ انہیں امریکا سے سیکیورٹی گارنٹیوں کی ضرورت ہے تاکہ جنگ کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔
حالیہ دنوں میں وائٹ ہاؤس اور یوکرین کے درمیان تعلقات میں تلخی بھی سامنے آئی تھی جب صدر زیلنسکی کی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات میں بات چیت بے نتیجہ رہی تھی۔
اس صورتحال میں زیلنسکی نے سعودی عرب میں اپنے دورے کو ایک نئے موقع کے طور پر دیکھا ہے۔
زیلنسکی نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ “ہماری طرف سے تمام کوششیں اس بات کے لیے ہیں کہ ہم ایک مثبت اور تعمیری بات چیت کے لیے تیار ہوں۔ ہم اس ملاقات کو ایک موقع کے طور پر دیکھ رہے ہیں تاکہ جنگ کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کیے جا سکیں۔”
انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس دوران یوکرین کے مفاد میں بہتر فیصلے کیے جائیں گے۔
مزید پڑھیں: نیٹو کا بوسنیا کے امن معاہدے کی حفاظت کا عہد، علیحدگی پسند قوانین پر شدید ردعمل
اسی دوران، امریکی حکام نے اس بات پر زور دیا ہے کہ اس ملاقات میں وہ یوکرین سے یہ جاننے کی کوشش کریں گے کہ کیا وہ روس کے ساتھ جنگ کے خاتمے کے لیے مادی طور پر کسی قسم کی قربانی دینے کے لیے تیار ہیں۔
ایک امریکی اہلکار کا کہنا تھا کہ “ہم چاہتے ہیں کہ یوکرین نہ صرف امن چاہے بلکہ ایک حقیقت پسندانہ امن کی طرف قدم بڑھائے۔”
دوسری جانب سعودی عرب میں جاری اس ملاقات میں زیلنسکی اور ولی عہد کے درمیان بھی امن معاہدے کے بنیادی نکات پر بات چیت ہونے کی توقع ہے۔
زیلنسکی نے روس سے جنگ کے خاتمے کے لیے عارضی جنگ بندی کی تجویز بھی دی ہے جسے سعودی ولی عہد کے ساتھ بات چیت میں زیر بحث لایا جا سکتا ہے۔
روس نے اس تجویز کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ یوکرین کے لیے مزید وقت خریدنے کی کوشش ہے تاکہ وہ اپنی فوجی پوزیشن کو مستحکم کر سکے۔
روس کی جانب سے یوکرین کے مختلف حصوں میں حملے بھی جاری ہیں جن میں حالیہ ہفتوں میں ایک ہزار سے زائد فضائی بمباری اور حملے کیے گئے ہیں۔
اس موقع پر امریکی وزیر خارجہ ‘مارکو روبیو’ نے جیدا روانگی سے قبل میڈیا سے بات کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ امریکا یوکرین کی حمایت جاری رکھے گا لیکن اس کے ساتھ ہی یہ ضروری ہے کہ بات چیت کے دوران یوکرین سے بھی حقیقت پسندانہ اقدامات کی توقع کی جائے۔
اب دیکھنا یہ ہو گا کہ کیا یہ اجلاس واقعی ایک نیا دور شروع کرے گا جہاں امن کی راہ ہموار ہو گی یا پھر یہ محض ایک اور اجلاس ہوگا جس میں مزید پیچیدگیاں جڑیں گی؟ وقت ہی بتائے گا، لیکن اس ملاقات کے بعد عالمی سطح پر امن کے امکانات کا دروازہ کھلنے کی اُمیدیں بڑھ گئی ہیں۔
مزید پڑھیں: ٹرمپ انتظامیہ نے غیر قانونی تارکین وطن کو گھر بھیجنے کے لیے ‘ایپ’ متعارف کروا دی