ٹیسلا کے اسٹاک کی قیمت تین ماہ میں تقریباً نصف رہ گئی ہے۔ اس کے باوجود، سرمایہ کار اب بھی اس بات پر بحث کر رہے ہیں کہ آیا ایلون مسک کی الیکٹرک وہیکل کمپنی اب بھی زیادہ قیمت پر چل رہی ہے۔
کمپنی کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن 17 دسمبر کو اپنی بلند ترین سطح 15کھرب ڈالر تک پہنچنے کے بعد 45 فیصد گر چکی ہے، جس سے وہ زیادہ تر منافع مٹ چکا ہے جو اس وقت حاصل ہوا تھا جب سی ای او مسک نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی فتح کے لیے مالی تعاون فراہم کیا تھا۔
اس کے باوجود، ٹیسلا کی قدر اب بھی دنیا کی سب سے بڑی آٹوموٹیو اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے، اگر روایتی مالیاتی پیمانوں کو دیکھا جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زیادہ تر سرمایہ کار اور تجزیہ کار مسک کے اس مؤقف کو خرید چکے ہیں کہ دنیا کی سب سے قیمتی آٹومیکر دراصل ایک مصنوعی ذہانت کی جدت کار ہے جو جلد ہی روبوٹیکسی اور ہیومینائیڈ روبوٹس کی انقلابی دنیا متعارف کرائے گی۔
ٹیسلا کی الیکٹرک گاڑیوں کی فروخت اس کی کل آمدنی کا تقریباً تمام حصہ بناتی ہے لیکن اس کے اسٹاک مارکیٹ ویلیو کا ایک چوتھائی سے بھی کم ہے۔ اس کی اصل مالیت کا زیادہ تر انحصار خود مختار گاڑیوں کی امیدوں پر ہے، جنہیں ابھی تک فراہم نہیں کیا گیا، حالانکہ مسک 2016 سے ہر سال یہ وعدہ کر رہے ہیں کہ ڈرائیور لیس ٹیسلا اگلے سال تک آ جائے گی۔
دسمبر کے بعد سے اسٹاک میں کمی کی بنیادی وجوہات میں گاڑیوں کی فروخت اور منافع میں کمی، مسک کی سیاسی سرگرمیوں پر ہونے والے مظاہرے بشمول امریکی حکومت کے ملازمین کی بڑے پیمانے پر برطرفیاں، جنہیں وہ ایک سینئر ٹرمپ مشیر کے طور پر انجام دے رہے ہیں ۔
سرمایہ کاروں کی یہ تشویش شامل ہیں کہ سیاست میں مسک کی مصروفیت ان کی اصل کاروباری توجہ کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ اس کے باوجود، الیکشن کے بعد سے ٹیسلا کی مارکیٹ کیپٹلائزیشن میں اب بھی تقریباً 65 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے جو کہ جنرل موٹرز کی مکمل مالیت سے بھی زیادہ ہے۔
ٹیسلا کی کل مارکیٹ ویلیو 8 کھرب 45 ارب ڈالر ہے، جو کہ اگلے نو سب سے زیادہ قیمتی آٹومیکرز کی مجموعی قدر سے بھی زیادہ ہے، حالانکہ ان کمپنیوں نے پچھلے سال تقریباً 4 کروڑ سے زائد گاڑیاں فروخت کی تھیں، جبکہ ٹیسلا نے صرف 18 لاکھ گاڑیاں بیچی تھیں۔
سرمایہ کاروں نے ہمیشہ ٹیسلا کے حالیہ منافع کے بجائے اس کے مستقبل کے وژن پر شرط لگائی ہے۔ تاہم، اس کی حقیقی کارکردگی اور تجزیہ کاروں کی ان امیدوں کے درمیان بڑھتا ہوا فرق جو ابھی تک حقیقت نہیں بنی ،کچھ ماہرین کو غیر منطقی جوش و خروش کے بارے میں خبردار کرنے پر مجبور کر رہا ہے۔