دفتر خارجہ نے تصدیق کی ہے کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث رہا ہے اور جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملے میں بھی دہشت گرد اپنے سرغنوں اور ہینڈلرز سے افغانستان میں رابطے میں تھے۔
دفتر خارجہ کے ترجمان شفقت علی خان نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ جعفر ایکسپریس حملے کا ریسکیو آپریشن مکمل کر لیا گیا ہے اور انٹیلی جنس اطلاعات سے یہ ثابت ہوا ہے کہ حملہ آور افغانستان میں اپنے ساتھیوں سے مسلسل رابطے میں تھے۔
یہ بیان اس وقت سامنے آیا جب سیکیورٹی فورسز نے ان تمام 33 بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا، جنہوں نے جعفر ایکسپریس کو یرغمال بنایا تھا۔ یہ ٹرین 400 سے زائد مسافروں کو لے کر جا رہی تھی، جنہیں دہشت گردوں نے یرغمال بنا لیا تھا۔

فوج کے مطابق تمام یرغمالیوں کو بازیاب کروا لیا گیا ہے، تاہم کلیئرنس آپریشن شروع ہونے سے قبل 21 مسافروں کو دہشت گردوں نے شہید کر دیا تھا، جبکہ اس حملے میں چار ایف سی اہلکار بھی شہید ہوئے۔
شفقت علی خان نے کہا کہ افغانستان پر ہماری بنیادی ترجیح دوستانہ و قریبی تعلقات کا فروغ ہے، اس سمت میں تعلقات کا تسلسل اہم ہے، انہوں نے کہا کہ بھارت، پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث رہا ہے، ہماری پالیسی میں اس حوالے سے کوئی تبدیلی نہیں آئی۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ہم طورخم سرحد کو کھلا رکھنا چاہتے ہیں، یہ پروپیگنڈا ہے کہ پاکستان طورخم سرحد کو کھلنے نہیں دے رہا، افغانستان کی جانب سے پاکستانی سرحد کے اندر چوکی بنانے کی کوشیش کی جا رہی تھی
شفقت علی خان نے یہ بھی واضح کیا کہ پاکستان سفارتی روابط کو عوامی سطح پر زیربحث نہیں لاتا، لیکن ایسے واقعات کی تفصیلی معلومات مسلسل افغانستان کے ساتھ شیئر کرتا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی اولین ترجیح افغانستان کے ساتھ دوستانہ اور قریبی تعلقات کو فروغ دینا ہے، جبکہ دہشت گردی کے خلاف کارروائی بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ تعاون کا ایک اہم پہلو ہے۔
آپریشن کے بعد، ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ جعفر ایکسپریس واقعہ نے کھیل کے اصول تبدیل کر دیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جو بھی اس حملے میں ملوث ہے، اسے ڈھونڈ نکالا جائے گا اور انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں کا اسلام، پاکستان یا بلوچستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
آئی ایس پی آر کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ انٹیلی جنس رپورٹس سے واضح طور پر ثابت ہو چکا ہے کہ یہ حملہ افغانستان میں موجود دہشت گرد سرغنوں نے منصوبہ بندی کے تحت کیا، اور وہ پورے واقعے کے دوران حملہ آوروں سے براہ راست رابطے میں رہے۔