پاکستان سمیت دنیا بھر میں آج اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن منایا جارہا ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے مارچ 2022 میں اسلامی تعاون تنظیم کی ایما پر 15 مارچ کو اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن منانے کی پاکستان کی پیش کردہ قرارداد منظور کی تھی۔
پاکستان کی سینیٹ اور قومی اسمبلی نے بھی اکتوبر 2020 میں فرانس میں توہین آمیز خاکوں کی عوامی تشہیر اور اسلاموفوبیا کی مذمت کرتے ہوئے ایک متفقہ قرارداد منظور کی گئی تھی۔
جون 2021 میں کینیڈا کے شہر اونٹاریو میں پاکستانی نژاد مسلم فیملی اس وقت ٹرک حادثے کا شکار ہوئی جب وہ اپنے گھر کے پاس چہل قدمی کر رہے ہوتے ہیں۔ حاثے کے نتیجے میں تین خواتین سمیت چار لوگ موقع پر ہی جں بحق جبکہ ایک نو سالہ بچہ شدید زخمی ہوا۔
اونٹاریو پولیس کی جانب سے تفتیش کے بعد یہ انکشاف سامنے کہ یہ واقعہ نسل پرستی اور اسلاموفوبیا کے نتیجہ تھا، لیکن یہ اس طرح کا پہلا واقعہ نہیں تھا، مغربی دنیا میں نائن الیون کے بعد مسلمانوں پر ایسے حملوں میں خوفناک حد تک اضافہ ہوا۔
‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ایڈووکیٹ لاہور ہائیکورٹ جمال جعفر خان کا کہنا تھا کہ آج کے دور میں اسلاموفیوبیا بڑھ رہا ہے یا کم ہورہا ہے، اس پر مختلف آراء پائی جاتی ہیں، جہاں تک اسلامو فوبیا کا تعلق ہے، یہ کچھ علاقوں میں خاص طور پر فرقہ واریت اور قوم پرستی کی وجہ سے بڑھ رہا ہے ، مگر تعلیم اور شعور میں اضافہ ہونے سے یہ مسائل کم ہو رہے ہیں۔ پاکستان کے مشرقی علاقوں میں یہ کم نظر آتا ہے، جب کہ مغربی علاقوں میں خاص طور پر کراچی کی طرف یہ ابھی تک چل رہا ہے۔
متعدد سروے اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں مسلمانوں کے حوالے سے منفی رپورٹنگ اس کی بڑی وجہ ہے۔
اخبارات اور ٹی وی پر اسلام اور مسلمان مخالف رپورٹنگ عام طور پر 1979 کے ایرانی انقلاب کے بعد شروع ہوئی، جب مغربی معاشرے نے اسلام کو سیاسی سطح پر ایک خطرے کے طور پر دیکھنا شروع کیا، بعض تحقیقات کے مطابق 1973 کی عرب اسرائیل جنگ میڈیا میں مسلمان مخالف رپورٹنگ کا نقطہ آغاز تھی۔
پچھلی صدی کی آخری دہائی میں کیمونزم کی شکست کے بعد اسلامی نظریات خاص طور پر ’سیاسی اسلام‘ براہ راست امریکی میڈیا کے نشانے پر آ گیا۔
بعض تجزیہ کار 1996 میں سامنے آنے والی ’سیموئل ہنگٹن‘ کی کتاب ’Clash of Civilization‘ میں پیش کیے گئے تہذیبی ٹکراؤ کے تصور کو میڈیا میں اسلام مخالف رپورٹنگ کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔
ایڈووکیٹ جمال جعفر خان نے بتایا کہ مسلمانوں کے درمیان غلط فہمیاں عام ہیں، کیونکہ لوگ اسلام کو گہرائی سے نہیں پڑھتے، بس مولویوں کی باتوں پر چل پڑتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں فرقہ واریت، نسل پرستی اور ثقافتی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ لوگ اسلام کی اصل حقیقت کو نہیں سمجھ پاتے اور مختلف فرقے اپنے حساب سے اسلام کو پیش کرتے ہیں، جس سے غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں۔
نائن الیون کے واقعے کے بعد عالمی میڈیا پر مسلمانوں کو مغربی تہذیب کے لیے خطرے کے طور پر پیش کرنے کے سلسلے میں شدت آ گئی۔
پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ صحافت کے طالب علم سراج حمید نے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا کہ اسلام اور مغرب کے درمیان صدیوں پر محیط سیاسی اور عسکری کشمکش جیسے صلیبی جنگیں، عثمانی فتوحات اور نوآبادیاتی دور نے بعض مغربی معاشروں میں مسلمانوں کے بارے میں ایک مخصوص منفی تصور پیدا کیا، جو آج بھی کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے اور یہی اسلاموفوبیا کی بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔
2016 میں کی گئی ایک تحقیق میں ’جس میں 2000 سے 2015 تک کے میڈیا آرٹیکلز کا جائزہ لیا گیا‘ یہ سامنے آیا کہ میڈیا میں مسلمانوں کو منفی انداز میں پیش کیا گیا اور اسلام کو اکثر ایک پرتشدد مذہب کے طور پر پیش کیا گیا۔
میڈیا اور کیمونیکیشن کی پروفیسر ’الزبتھ پول‘ کے مطابق میڈیا نے اسلام اور مسلمانوں کو مغربی اقدار اور سیکیورٹی کے لیے خطرے کے طور پر پیش کیا۔
ایڈووکیٹ لاہور ہائیکورٹ نے اپنی ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئے ‘پاکستان میٹرز’ کو بتایا کہ ہمارے علاقے میں محفل میلاد یا شادیوں پر مولوی صاحب نے کہا کہ پیسے پھینکنا غلط ہے اور یہ گناہ ہے۔ لیکن جب وہ خود محفل میں شریک ہوئے تو لوگوں نے ان پر پیسے پھینکنے شروع کر دیے۔ جب انہوں نے سوال کیا تو مولوی صاحب نے کہا کہ اس سے پیسے میں برکت آتی ہے۔ پھر اسے ‘وہابی’ اور ‘شیعہ’ جیسے الزامات سننے کو ملے۔ یہ فرقہ واریت اور غلط فہمیاں ہی اسلام میں مسائل پیدا کرتی ہیں۔
2007 میں پیو ریسرچ سینٹر کی طرف سے امریکہ میں کروائے گئے سروے میں یہ سامنے آیا کہ مسلمانوں کے بارے میں لوگوں کی منفی رائے زیادہ تر ان باتوں کے زیر اثر تھی جو انہوں نے ذرائع ابلاغ سے سنیں اور پڑھیں، تحقیق کے مطابق مسلمانوں کے خلاف منفی رپورٹنگ کی شرح امریکہ میں 80 فیصد، برطانیہ اور کینیڈا میں 79 فیصد اور آسٹریلیا میں 77 فیصد تھی۔
متعدد تحقیقات اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ منفی رپورٹنگ عالمی سطح پر مسلمانوں کے لیے غیر سازگار ماحول پیدا کرنے کی وجہ بنتی ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کے طالب علم کے مطابق مغربی میڈیا میں اکثر اسلام اور مسلمانوں کی تصویر کشی یک طرفہ اور منفی انداز میں کی جاتی ہے۔ دہشت گردی یا انتہا پسندی کی کارروائیوں کو اکثر مذہب اسلام سے جوڑا جاتا ہے، جب کہ دیگر مذاہب کے ماننے والوں کے جرائم کو ان کے مذاہب سے منسوب نہیں کیا جاتا۔ یہ رجحان عام عوام میں اسلام کے خلاف غلط فہمیاں پیدا کرتا ہے۔
میڈیا میں مسلسل مسلمانوں کو نیگیٹو پورٹریٹ کرنے کے عمل‘ کو عوام اور حکومتی اداروں میں، مسلمان مخالف پالیسیوں کی حمایت میں اضافے کا ذمہ دار قرار دیا جاتا ہے، مغربی معاشرے کا اپنے مسلمان شہریوں پراعتبار کمزور ہوا اور ان کو ایک خطرے کے طور پر دیکھا جانے لگا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ عالمی طاقتوں کی مسلمان ممالک میں مداخلت کے لیے رائے عامہ ہموار کرنے میں بھی میڈیا کا کردار واضح نظر آتا ہے۔
اسلاموفوبیا پر مشتمل رپورٹنگ کی نگرانی اور اسے روکنے کے لیے 2001 میں لندن میں ’فورم اگینسٹ اسلاموفوبیا اینڈ ریسزم‘ نامی آرگنائزیشن قائم کی گئی۔ 2012 میں ’آرگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن‘ نے اسلاموفوبیا کا مقابلہ کرنے کے لیے ٹی وی چینل بنانے کا اعلان کیا۔
جمال جعفر خان کے مطابق عالمی میڈیا اسلام کے خلاف منفی تاثر پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے، مختلف ڈراموں میں منفی کردار مولانا سے کروایا جاتا ہےاور خاص طور پر انڈین فلموں میں مسلمانوں کو دہشتگرد دکھایا جاتا ہے، جوکہ مذہبی شدت پسند ہوتے ہیں۔وہ اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتے اور ہندؤں کو نقصان پہنچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے ہیں، جس سے اسلام کے خلاف منفی پروپیگنڈہ تیار کیا جا رہا ہے۔
اسی طرح ’اسلامی سوسائٹی آف بریٹن‘ نامی ادارہ اسلاموفوبیا کے خلاف اور کمیونٹی ریلیشنز کوبہتر بنانے کے لیے ایک طویل عرصے سے کردار ادا کر رہا ہے۔
ایڈووکیٹ جمال جعفر کا کہنا ہے کہ اسلامو فوبیا پر خبریں دیکھ کر دکھ ہوتا ہے، کیونکہ یہ زیادہ تر لاشعوری اور غلط فہمیوں پر مبنی ہوتی ہیں۔ اگر لوگ خود قرآن پڑھیں اور پانچ وقت کی نماز ادا کریں تو انہیں کسی کے پیچھے لگنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ علم اور شعور سے ہی ایسی غلط فہمیاں ختم ہو سکتی ہیں۔
اسلاموفوبیا کے خطرے سے نمٹنے کے لیے اقوام متحدہ نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مختلف سٹریٹجیز اپنائی ہیں۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے اپنے پیغام میں آن لائن اسلام مخالف نفرت انگیز تقاریر کے خلاف متنبہ کیا ہے۔ انہوں نے زور دیتے ہوے کہا کہ”آن لائن نفرت انگیز تقاریر حقیقی زندگی میں تشدد کو ہوا دے رہی ہیں۔”
سراج حمید کا کہنا ہے کہ بعض سیاسی قوتیں اسلاموفوبیا کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ انتخابات میں عوامی جذبات کو بھڑکانے کے لیے مسلمانوں کے خلاف خوف اور نفرت کو ہوا دی جاتی ہے۔ کچھ ممالک میں مسلم مخالف قوانین اور پالیسیاں بھی اسی سیاست کا نتیجہ اور تعلیم و شعور کو بڑھانا ضروری ہے۔ میڈیا کو وہ سچ دکھانا چاہیے جو دنا میں مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا۔
اقوام متحدہ نے 15 مارچ کو اسلاموفوبیا کے خلاف عالمی دن منانے کا اعلان کرتے ہوئے حکومتوں اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر زور دیا ہے کہ وہ نفرت انگیز رپورٹنگ اور تجزیوں کو روکنے کے لیے اقدامات کریں۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلمان مل کر اسلاموفوبیا کے خلاف اقدامات کریں اور فرقہ وارانہ فسادات سے نکل کر عالمی سطح پر جھوٹا پروپیگنڈہ پھیلانے والوں کو بے نقاب کریں اور اسلام کا مثبت پہلو سب کے سامنے نمایاں کریں، ورنہ اس کا جو نتیجہ نکلے گا وہ انتہائی خطرناک ہوگا اور اسلام محض شدت پسند اور دہشتگرد کے القاب سے پکارا جائے گا۔