کھانے پینے کے شوقین افراد بارہ مہینے ہی مختلف قسم کے کھانے کھاتے اور لطف اٹھاتے ہیں مگر موسمی اعتبار سے لوازمات کالطف اٹھانے کا مزہ ہی الگ ہے۔
پاکستان میں چار موسم ہیں اور ہر موسم اپنی الگ سوغات رکھتا ہے مگر جب سردیاں آتی ہیں تو اپنے ساتھ بھوک لاتی ہیں۔ تازہ اور گرم کھانا ہر پاکستانی کی خواہش ہوتی ہے۔ ریستورانوں اور ہوٹلوں میں کھانے والوں کی لہر دیکھائی دیتی ہے۔
مچھلی اور گوشت خوروں کی ایک بڑی تعداد ہروقت ہوٹل میں موجود رہتی ہے اور منگوائی جانے والی گوشت سے بنی ڈشوں میں کڑاہی صفِ اول ہوتی ہے۔
ویسے توپاکستان کے ہر شہر کی اپنی منفرد ڈش ہے جو اپنامنفرد ذائقہ رکھتی ہے جس کی مثال کہیں نہیں ملتی، مگر پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخوا کے قریب پنجاب کے سرحدی شہر اٹک میں پائی جانے والی کٹوا گوشت کی ڈش کا کوئی ثانی نہیں۔
اس ڈش کی خاص بات یہ ہے کہ اس کو کھانے کے بعد بندہ اپنی تو انگلیاں چاٹتا ہی ہے مگر ساتھ میں بنانے والے کے ہاتھ چومنے کا دل بھی کرتا ہے۔ اس ڈش کو ایک بار کھانے سے آپ کو کڑاھی کا ذائقہ بھول جائے گا اور آپ دوبارہ کھانے کے لئے خصوصا” اٹک کا دورہ کریں گے۔
اٹک کے ہوٹلوں پر ملنے والی اس ڈش کو کھانے کے لئے ہروقت خاصارش لگا رہتا ہے۔ اس کو کھانے میں جتنا مزا پوشیدہ ہے اتنا ہی اس کو پکانے میں محنت بھی ہے اورشاید اسی لئے کہا جاتا ہے “جتنا گڑ اتنا میٹھا!”
اس کے علاوہ اگرکوئی شادی پر بنی روایتی کٹوا ڈش کھالے تو شاید ہی قیامت تک بھول پائے۔ کھانے کا نام آئے اور اس کے ذہن میں کٹوا ڈش نہ آئے ایسا تو ناممکن ہے۔
صدیوں پرانی کٹواگوشت ڈش آج بھی اٹک کی روایتی شادیوں اور تقریب میں بنائی جاتی ہے۔ اس ڈش کی تیاری میں بہت وقت لگتا ہے۔
اس ڈش کو لکڑی کی آگ کی مدد سے مٹی کے برتنوں میں تیار کیا جاتا ہے۔دس کلو گوشت کو تیار کرنے میں 6 سے 7 گھنٹے لگتے ہیں جبکہ اگر گھر پر کم گوشت کے ساتھ بنائی جائے تو 2 سے 3 گھنٹوں میں تیار ہوجاتی ہے۔
مٹی کے برتن میں گوشت ڈالنے کے بعد اس پر 2 کلو پیاز اور ساتھ میں ادرک، لہسن اور ہری مرچ حسبِ ضرورت ڈال کر ہلائے بغیر اس پرڈھکنا دے کر نیچے ہلکی آنچ میں آگ لگائی جاتی ہے۔
1 گھنٹہ گزرنے کے بعد ڈھکنا اتار کر آگ کو نیچےتیز کردیا جاتا ہے اور ساتھ میں چمچہ ہلا کر حسبِ ضرورت نمک، مرچ اور گھی ڈال کر بھونا جاتا ہے۔
اس ڈش کو مٹی کے برتن میں پکانے کے بعد مٹی کے برتن میں کھانے سے ہی مزا دوبالا ہوتا ہے۔مٹی کے برتنوں کو شرکوٹی کہا جاتا ہے اور ان میں گندم سے بنی روٹی کو ہاتھوں کے ذریعے باریک باریک ٹکڑے کرکے ڈال کر کھایا جاتا ہے۔
نامور ریستورانوں کی بنی کڑاہیوں کو بھلانے کے لئے مٹی کے برتنوں میں پکے اس کٹواگوشت کے چند لقمے ہی کافی ہیں۔یہ اٹک اور آس پاس کے علاقوں جیسا کہ حسن ابدال، ہری پور، تناول،حضرو اور چھچھ کے رہنے والے لوگوں کی پسندیدہ غذا ہے ۔
‘ ہمارا تو یقین ہے، اچھا اور لذیز کھانا ہر شخص کا حق ہے، آئندہ چھٹیوں میں یہاں کی سیاحت کے ساتھ کٹوا گوشت کھانااپنے کیلنڈر کا حصہ بنائیں، آپ بھی ‘پاکستان میٹرز’ کے قائل ہو جائیں گے۔