پاکستان میں ایک نصاب، ایک نظام نہ ہونے سے طبقاتی تفریق پیدا کررہا ہے یہ نظام امیر و غریب، شیعہ و سنی، دیوبندی اور اہلحدیث جیسی دینی تفریق، جدید اور قدیم، لسانی فرق کو بھی واضح کرتا ہے۔
پسماندہ علاقوں میں تعلیمی سہولیات کے فقدان کی وجہ سے شرحِ خواندگی 49 فیصد ہے اور وہاں میٹرک تک تعلیم حاصل کر لینا بھی ایک بڑا کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ ان علاقوں میں یونیورسٹی کی تعلیم کا تناسب تین سے چار فیصد پایا جاتا ہے۔
محمد شعیب نامی نوجوان ایک دیہی علاقے میں رہتا ہے، جہاں بنیادی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے والدین اپنے بچوں کو جامعات کی تعلیم دلانے کے بجائے ہنر سکھانا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔
محمد شعیب نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “ہمارے علاقے میں تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے۔ یہاں پرائمری تعلیم کے لیے بچوں کو دور دراز علاقوں میں جانا پڑتا ہے جبکہ ہائی سکول اور کالج کی تعلیم کے لیے شہر جانا لازمی ہوتا ہے۔ اس وجہ سے بچے کالج تک بھی تعلیم حاصل نہیں کر پاتے اور جامعات کی تعلیم دور کی بات ہے۔”
پسماندہ علاقوں میں والدین زیادہ وسائل نہ ہونے کی وجہ سے بچوں کو ہنر سکھانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ یہاں یہ سوچ پروان چڑھ چکی ہے کہ میٹرک کے بعد نوجوان کو روزگار کی طرف آ جانا چاہیے۔
اکثر والدین اپنے بچوں کو اس لیے انٹرمیڈیٹ تک تعلیم دلواتے ہیں کیونکہ ان کی قومی شناختی کارڈ کے لیے عمر پوری نہیں ہوتی۔
مزید برآں، نوکریوں کی کمی کی وجہ سے والدین سمجھتے ہیں کہ ہنر سکھانا زیادہ بہتر فیصلہ ہے۔
پاکستان کے کچھ علاقوں میں خواتین کی تعلیم کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے اور انہیں زیادہ سے زیادہ پرائمری تک تعلیم دلوانا مناسب سمجھا جاتا ہے۔
محمد شعیب کے مطابق لڑکیوں کی شرح خواندگی 15 سے 20 فیصد سے زیادہ نہیں ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ تعلیمی سہولیات کا فقدان اور والدین کی جانب سے بیٹیوں کو دور بھیجنے سے گریز ہے۔
اگر قریبی علاقوں میں معیاری تعلیمی ادارے ہوں تو شاید والدین اپنی بیٹیوں کی تعلیم کے بارے میں سوچیں۔
اس کے علاوہ کم عمری کی شادی بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے جس کی وجہ سے لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کی بجائے گھر کے کاموں میں الجھا کر رکھا جاتا ہے۔
ہمارے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں ‘کو’ ایجوکیشن بھی بعض علاقوں میں تعلیم کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ اگر ان علاقوں میں مناسب تعلیمی سہولیات فراہم کی جائیں تو شرحِ خواندگی میں اضافے کے امکانات روشن ہو سکتے ہیں اور لڑکوں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں کی تعلیم پر بھی توجہ دی جا سکتی ہے۔
ملک میں دوہرا نظامِ تعلیم امیر اور غریب کے درمیان فرق کو مزید بڑھا رہا ہے۔ امیر طبقے کے لیے الگ نصاب اور غریب طبقے کے لیے الگ نصاب ترتیب دیا گیا ہے جس وجہ سے نچلے طبقے میں احساسِ کمتری کو مزید بڑھاوا ملا ہے۔
ماہر تعلیم ڈاکٹر محمد حمزہ نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “پاکستان میں دوہرا نظامِ تعلیم امیر اور غریب کے درمیان واضح تفریق پیدا کر رہا ہے۔ سرکاری اداروں کے طلبہ جدید وسائل اور معیاری نصاب سے محروم رہتے ہیں جس کی وجہ سے وہ خود کو کم تر محسوس کرتے ہیں اور جلد از جلد روزگار کی تلاش میں لگ جاتے ہیں۔”
پاکستان کے بعض علاقوں میں قریبی سکول اور کالجز نہ ہونے کی وجہ سے بھی لوگ تعلیم حاصل نہیں کر پاتے۔
بیشتر دیہاتوں میں پرائمری سکول تو موجود ہیں لیکن ہائی سکول 20، 20 کلومیٹر کے فاصلے پر ہونے کی وجہ سے والدین بچوں کو مزید تعلیم دلوانے سے قاصر ہوتے ہیں، اسی وجہ سے یونیورسٹی کا تعلیمی تناسب کم ہے۔
ماہر تعلیم ڈاکٹر محمد حمزہ نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “دیہی اور پسماندہ علاقوں میں ہائی سکول نہ ہونے کی وجہ سے والدین بچوں کو مزید تعلیم نہیں دلا سکتے۔ طویل فاصلے اور مالی وسائل کی کمی کے باعث اکثر طلبہ، خاص طور پر لڑکیاں، تعلیم ادھوری چھوڑ دیتی ہیں۔ یہ صورتحال اعلیٰ تعلیم تک رسائی میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔”
اگر دیکھا جائے تو چند علاقوں میں سرکاری تعلیمی ادارے موجود ہونے کے باوجود ان کا انفراسٹرکچر نوجوانوں کی ذہنی نشوونما اور نوکری حاصل کرنے کے لیے مؤثر ثابت نہیں ہوتا۔
یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر نوجوان مزید پڑھینے کی نسبت میٹرک کے بعد نوکری کرنے کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں، کیونکہ وہ یونیورسٹی کی فیس اور دیگر اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔ اگر حکومت مالی مدد فراہم کرے تو یہ طلبہ بھی اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکتے ہیں۔
پاکستان کے تعلیمی نظام اور ہائر ایجوکیشن کمیشن کی پالیسیوں نے نوجوانوں میں بہت مایوسی پیدا کر دی ہے۔
ڈاکٹر محمد حمزہ کے مطابق، ہائر ایجوکیشن کمیشن کی پالیسیاں عام طلبہ کے لیے مؤثر ثابت نہیں ہو رہیں۔ اسکالرشپس اور مالی معاونت محدود تعداد میں دی جاتی ہے جو ہر مستحق طالب علم تک نہیں پہنچتی۔ فیسوں میں اضافے اور مہنگے تعلیمی نظام کے باعث بہت سے باصلاحیت طلبہ یونیورسٹی تک نہیں پہنچ پاتے۔
نجی تعلیمی اداروں نے پاکستانی تعلیمی نظام میں مزید تفریق پیدا کر دی ہے۔ اس دوہرے نظام نے عام آدمی کو تعلیم سے مزید دور کر دیا ہے۔
ڈاکٹر محمد حمزہ نے نجی یونیورسٹیوں کے حوالے سے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ نجی یونیورسٹیاں تعلیم کو کاروبار بنا چکی ہیں۔ بھاری فیسیں عام طالب علم کے لیے رکاوٹ بن جاتی ہیں جس کی وجہ سے اعلیٰ معیار کی تعلیم صرف امیر طبقے تک محدود ہو گئی ہے۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو تعلیمی عدم مساوات مزید بڑھ جائے گی۔
پاکستان میں اعلیٰ تعلیم ہر کسی کے لیے قابلِ رسائی نہیں ہے، جس کی بڑی وجوہات میں تعلیمی سہولیات کا فقدان، دوہرا نظامِ تعلیم، مالی وسائل کی کمی، اور تعلیمی پالیسیوں میں کمزوریاں شامل ہیں۔
پسماندہ علاقوں میں تعلیمی نظام کو بہتر بنا کر اور مالی مدد فراہم کر کے اعلیٰ تعلیم کے مواقع سب کے لیے یکساں بنائے جا سکتے ہیں۔
اگر حکومت سنجیدگی سے تعلیمی اصلاحات کرے تو امیر اور غریب کے درمیان تعلیمی فرق کو کم کیا جا سکتا ہے جس سے ملک میں خواندگی کی شرح میں اضافہ اور ترقی کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔