سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے وفاقی حکومت پر بجلی اور چینی کی قیمتوں میں اضافے کی اجازت دینے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی بجلی میں ایسی کیا خاص بات ہے جو اتنی مہنگی بیچ رہے ہو۔
کراچی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل نے کہا کہ موجودہ انتظامیہ نے شوگر مل مالکان کو برآمدی اجازتوں سے فائدہ اٹھانے کے قابل بنایا ہے جب کہ روزمرہ پاکستانیوں کو آسمان چھوتی قیمتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چھ ماہ قبل حکومت نے50 سے 60 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی تاکہ سندھ اور پنجاب کے شوگر مل مالکان کو ڈالر اور ریلیف مل سکے۔
ماضی کے فیصلوں سے موازنہ کرتے ہوئے مفتاح اسماعیل نے پاکستان مسلم لیگ ن کو سابق وزیر اعظم عمران خان کے دور میں چینی کی برآمدات پر پہلے کی گئی تنقید کی یاد دلائی۔ ’’میں شہباز شریف صاحب سے پوچھتا ہوں کہ آپ کے چینی برآمد کرنے کے فیصلے پر کس نے اثر ڈالا؟‘‘
“کیونکہ آپ نے وعدہ کیا تھا ،جب چینی 80 سے 90 روپے تھی ، کہ آپ اسے 140 روپے سے زیادہ نہیں ہونے دیں گے۔” برآمدات اس وقت شروع ہوئیں جب چینی 115 روپے پر تھی اب 175 روپے پر ہے۔
انہوں نے حالیہ پالیسی فیصلوں کے پیچھے منطق پر سوال اٹھایا: “پاکستانی عوام کو معلوم ہونا چاہیے کہ چینی کیوں مہنگی ہے، آپ شمسی توانائی کے بل کیوں کم کر رہے ہیں، اور آپ لوگوں کی بجلی کیوں مہنگی کر رہے ہیں؟”
حکومت کی جانب سے ریٹیل قیمتوں کو 130 روپے فی کلو پر برقرار رکھنے کی متعدد کوششوں کے باوجود، اب چینی مارکیٹوں میں 180 روپے سے زیادہ میں فروخت ہو رہی ہے،مسابقتی کمیشن آف پاکستان (سی سی پی) نے بھی قدم بڑھاتے ہوئے شوگر ملوں کو قیمتوں میں ہیرا پھیری کے نتائج سے خبردار کیا ہے۔
دریں اثنا، چینی کی کھپت مسلسل بڑھ رہی ہے، جو کہ 2024-25 میں 67 لاکھ ٹن تک پہنچنے کی توقع ہے، آبادی میں اضافے اور خوراک کی صنعت کی طلب کی وجہ سے پاکستان نے گزشتہ سیزن میں 68 لاکھ ٹن سے زیادہ پیداوار کی تھی، جس میں مزید نمو متوقع ہے۔
مفتاح سماعیل نے ملک کے بجلی کے اعلیٰ نرخوں پر بھی تنقید کی، دلیل دی کہ یہ سرمایہ کاروں کو روکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش، بھارت، سری لنکا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، کمبوڈیا، جنوبی افریقا اور کینیا یہ صرف چند ایسے ممالک ہیں جو شاید ہم سے آگے نکل گئے ہیں اور جب پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں آتی ہے تو وہ ان ممالک کو جاتی ہے۔