اپریل 11, 2025 4:28 صبح

English / Urdu

Follw Us on:

نئی نسل اور شاعری: روایت سے بغاوت یا جدت کی تلاش؟

زین اختر
زین اختر

شاعری ایک ایسا فن ہے جو انسانی جذبات، خیالات اور احساسات کو نہایت خوبصورتی سے الفاظ میں پروتا ہے۔ شاعری کے ذریعے نہ صرف محبت، دکھ، خوشی اور امید کا اظہار کیا جاتا ہے بلکہ یہ ایک طاقتور ذریعہ بھی ہے سماجی مسائل پر روشنی ڈالنے کا۔ ہر سال 21 مارچ کو عالمی یومِ شاعری منایا جاتا ہے، جس کا مقصد شاعری کے فن کو خراجِ تحسین پیش کرنا اور نئے شاعروں کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

یہ دن 1999 میں یونیسکو کی جانب سے منظور کیا گیا تاکہ شاعری کو ایک ثقافتی اظہار کے طور پر تسلیم کیا جا سکے اور زبان و ادب کے فروغ میں اس کے کردار کو اجاگر کیا جا سکے۔ شاعری صدیوں سے دنیا بھر میں مختلف ثقافتوں اور زبانوں میں ایک اہم مقام رکھتی ہے، لیکن جب بات اردو شاعری کی ہو تو اس کی جڑیں انتہائی گہری اور اس کی تاثیر وسیع ہے۔

اردو شاعری کی بنیاد فارسی اور عربی ادب سے متاثر ہو کر رکھی گئی۔ امیر خسرو کو اردو کا اولین شاعر کہا جاتا ہے، جنہوں نے دہلی کی گلیوں میں پروان چڑھتی ہوئی اس زبان کو اپنے اشعار میں جگہ دی۔ اٹھارہویں اور انیسویں صدی میں میر تقی میر، مرزا غالب، سودا اور ذوق جیسے عظیم شعراء نے اردو غزل اور نظم کو نیا آہنگ بخشا۔ ان کی شاعری میں محبت، فلسفہ، درد اور سماجی حقیقتیں نمایاں نظر آتی ہیں۔

مرزا غالب کے بعد علامہ اقبال کی شاعری نے اردو ادب کو ایک نئی روح عطا کی۔ اقبال نے اپنی شاعری میں خودی، آزادی، روحانی بیداری اور اسلامی فلسفے کو اجاگر کیا۔ ان کے بعد فیض احمد فیض، احمد ندیم قاسمی، ناصر کاظمی اور پروین شاکر جیسے شعراء نے اردو شاعری میں نئے موضوعات کو متعارف کرایا۔

اردو شاعری آج بھی زندہ ہے، مگر اس کا دائرہ کار بدل چکا ہے۔ پہلے شاعری محافل، مشاعروں، دیوانوں اور کتابوں تک محدود تھی، مگر آج سوشل میڈیا نے شاعری کو نئی جہت دی ہے۔ انسٹاگرام، فیس بک اور یوٹیوب پر “انسٹا پوئٹری” کا رجحان بڑھ رہا ہے، جہاں نوجوان شعراء مختصر اشعار اور نثری شاعری کے ذریعے اپنے جذبات کا اظہار کر رہے ہیں۔

معروف شاعر خرم آفاق اس حوالے سے کہتے ہیں کہ آج کی شاعری میں روایت سے جڑت کم ہوتی جا رہی ہے۔ جدید شاعر جذبات کو بیان تو کر رہے ہیں، مگر ان کے ہاں وہ فنی پختگی اور فکری گہرائی کم نظر آتی ہے جو میر، غالب، اقبال اور فیض کی شاعری میں تھی۔ دوسری جانب نوجوان شاعر امین چوہدری کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا نے شاعری کو عام کیا ہے، اب شعر کہنے کے لیے کسی دیوان کی ضرورت نہیں، بس ایک پوسٹ یا ٹویٹ کافی ہے۔ لیکن اس آسانی کے باعث معیار بھی گرتا جا رہا ہے، کیونکہ ہر شخص شاعر بننے کی کوشش کر رہا ہے۔

دنیا بھر میں شاعری کو آج بھی ایک اہم ادبی صنف سمجھا جاتا ہے۔ انگریزی شاعری میں ولیم ورڈز ورتھ، شیلے، کیٹس اور ٹی ایس ایلیٹ جیسے شعرا نے ادب کو نئی راہیں دکھائیں۔ عربی شاعری میں نزار قبانی، فارسی میں حافظ اور رومی کی شاعری آج بھی مقبول ہے۔ لیکن ڈیجیٹل دور میں، شاعری کے قارئین کی تعداد کم ہوتی جا رہی ہے۔ شعری مجموعے کم چھپ رہے ہیں، مشاعروں میں پہلے جیسی رونق نہیں، اور لوگ نثری ادب کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں۔

یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیا شاعری کا مستقبل روشن ہے؟ کچھ نقادوں کا کہنا ہے کہ شاعری کا معیار زوال پذیر ہے، مگر دوسرے کہتے ہیں کہ یہ صرف ایک ارتقائی مرحلہ ہے۔ آج کے نوجوانوں کے پاس اظہار کے بےشمار طریقے ہیں، اور وہ روایتی شاعری سے زیادہ آزاد شاعری کو پسند کرتے ہیں۔

اردو کے معروف شاعر عقیل عباس کا کہنا ہے کہ شاعری کبھی ختم نہیں ہو سکتی، کیونکہ انسانی جذبات کبھی ختم نہیں ہو سکتے۔ بس وقت کے ساتھ اس کا انداز اور ذریعہ بدل رہا ہے۔ شاعرہ عروج زہرا کہتی ہیں کہ یہ سچ ہے کہ روایتی شاعری کے قارئین کم ہو رہے ہیں، مگر شاعری آج بھی ہر دور کی طرح ایک طاقتور ذریعہ اظہار ہے۔ اگر ہم اس کے معیار کو برقرار رکھیں تو یہ ہمیشہ زندہ رہے گی۔

عالمی یومِ شاعری ہمیں یہ موقع دیتا ہے کہ ہم اس عظیم ادبی ورثے کی حفاظت کریں، نئے شاعروں کی حوصلہ افزائی کریں، اور شاعری کو نئے زمانے کے مطابق ڈھالیں۔ اگر ہم شاعری کی اصل روح کو برقرار رکھیں اور اس میں موجود فکری گہرائی کو نظرانداز نہ کریں، تو شاعری کا مستقبل یقیناً روشن ہے۔ شاعری کبھی نہیں مرتی، بس اسے سننے والے بدل جاتے ہیں۔

 

زین اختر

زین اختر

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس