امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کے روز ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کیے، جس کا مقصد وفاقی محکمہ تعلیم کو ختم کرنے کی راہ ہموار کرنا تھا۔ یہ فیصلہ قدامت پسندوں کے ایک مطالبے کو پورا کرنے کی کوشش کے طور پر سامنے آیا ہے، جس کے تحت تعلیمی پالیسیوں کا اختیار ریاستوں اور مقامی تعلیمی اداروں کو منتقل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
وائٹ ہاؤس میں منعقدہ ایک تقریب میں ٹرمپ نے کہا کہ یہ حکم محکمہ تعلیم کو “ختم کرنے” کی جانب پہلا قدم ہے، حالانکہ اس ایجنسی کو مکمل طور پر بند کرنے کے لیے کانگریس کی منظوری درکار ہوگی، جہاں ٹرمپ کو تاحال مطلوبہ ووٹوں کی حمایت حاصل نہیں ہے۔ تقریب میں موجود طلباء نے علامتی طور پر اپنے فرضی ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے، جبکہ ٹرمپ نے کہا کہ وہ تعلیم کو واپس ان ریاستوں کے حوالے کر رہے ہیں جہاں اس کا “اصل مقام” ہے۔
یہ اقدام ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب محکمہ تعلیم نے اعلان کیا کہ وہ اپنے تقریباً نصف ملازمین کو فارغ کرنے جا رہا ہے۔ یہ ٹرمپ کی اُس وسیع تر مہم کا حصہ ہے، جس کے تحت وہ وفاقی حکومت کے سائز کو کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جسے وہ غیر ضروری اور ناکام تصور کرتے ہیں۔
امریکہ میں تعلیم ایک طویل عرصے سے سیاسی تنازعات کا مرکز رہی ہے۔ قدامت پسند مقامی کنٹرول، نجی و مذہبی اسکولوں کے لیے حکومتی تعاون، اور اسکول کے انتخاب جیسے نظریات کے حامی ہیں، جبکہ لبرل تعلیمی حلقے سرکاری اسکولوں اور تنوع کے فروغ کے لیے فنڈنگ میں اضافے پر زور دیتے ہیں۔ تاہم، ٹرمپ نے اس معاملے کو ایک اور سطح تک پہنچا دیا ہے، اور وہ اسے ایک بڑے نظریاتی تنازعے کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ امریکہ کے اسکولوں اور جامعات میں لبرل نظریات کی تبلیغ ہو رہی ہے، جس کے خلاف وہ بھرپور مزاحمت کر رہے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے کالجوں اور یونیورسٹیوں میں تنوع، مساوات، اور شمولیت کی پالیسیوں کو ختم کرنے کے اقدامات کیے ہیں، جیسا کہ وہ وفاقی حکومت میں کر رہے ہیں۔ اس پالیسی کا اثر کولمبیا یونیورسٹی جیسے اداروں پر بھی پڑا، جسے کیمپس میں احتجاج کو کنٹرول کرنے کے لیے اقدامات کرنے کی آخری مہلت دی گئی، بصورتِ دیگر اسے 400 ملین ڈالر کی معطل شدہ فنڈنگ سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا تھا۔
وائٹ ہاؤس کا مؤقف ہے کہ محکمہ تعلیم قومی خزانے پر بوجھ ہے اور اس کے نتائج ناقص رہے ہیں۔ حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ تعلیم پر کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود امتحانی نتائج، شرح خواندگی، اور ریاضی کی مہارت کے لحاظ سے امریکی طلباء کی کارکردگی مایوس کن ہے۔
تعلیمی پالیسیوں پر تنازعات کورونا وائرس وبا کے دوران مزید شدت اختیار کر گئے، جب والدین نے اسکول بورڈ کے اجلاسوں میں شرکت کرکے تعلیمی نصاب اور پالیسیوں پر شدید اعتراضات اٹھائے۔ اس بے چینی کو قدامت پسند گروہوں، جیسے “مامز فار لبرٹی” اور ریپبلکن رہنماؤں نے ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔
ٹرمپ کی تقریب میں ٹیکساس کے گورنر گریگ ایبٹ اور فلوریڈا کے گورنر رون ڈی سینٹیس جیسے نمایاں ریپبلکن رہنماؤں نے شرکت کی۔ دوسری جانب، ڈیموکریٹ سینیٹر پیٹی مرے نے کہا کہ ٹرمپ یہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ کانگریس کی منظوری کے بغیر محکمہ تعلیم کو باضابطہ طور پر ختم نہیں کر سکتے، لیکن اگر وہ اس کے عملے کو فارغ کر دیں اور اس کی فعالیت کو محدود کر دیں، تو نتیجہ وہی ہوگا جو وہ چاہتے ہیں۔
یہ ایگزیکٹو آرڈر امریکی تعلیمی نظام میں ایک بڑی تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے، جس کے اثرات آنے والے برسوں تک محسوس کیے جا سکتے ہیں۔