ایک جدید مطالعے نے دنیا بھر میں حیرت پھیلا دی ہے۔ اس تحقیق میں انکشاف ہوا ہے کہ گیزا کے مشہور اہرام کے نیچے ایک وسیع اور پیچیدہ زیر زمین نظام موجود ہے۔ یہ دریافت اس نظریے کو چیلنج کرتی ہے کہ اہرام صرف شاہی مقبرے تھے۔
یہ تحقیق اٹلی کی یونیورسٹی آف پیسا کے سائنسدان کوراڈو ملنگا اور یونیورسٹی آف اسٹریتھ کلائیڈ کے فلیپو بیونڈی نے کی۔ انہوں نے مصنوعی یپرچر ریڈار ٹوموگرافی کا استعمال کرتے ہوئے کھفری اہرام کو اسکین کیا اور تینوں بڑے اہرام کے نیچے تقریباً دو کلومیٹر تک پھیلا ہوا ایک زیر زمین ڈھانچہ دریافت کیا۔
ریسرچ کے مطابق، کھفری اہرام کی بنیاد کے قریب پانچ ایک جیسے کثیر سطحی ڈھانچے موجود ہیں جو جیومیٹرک راستوں سے جُڑے ہوئے ہیں۔ مزید حیرت انگیز دریافت آٹھ عمودی کنویں ہیں جو سطح سے تقریباً 648 میٹر نیچے جاتے ہیں اور سرپل راستوں سے گھرے ہوئے ہیں۔ یہ کنویں آخر میں دو بڑے مکعب نما کمروں سے جا ملتے ہیں، جن کی ہر ایک سمت 80 میٹر لمبی ہے۔
یہ دریافت کئی دہائیوں سے گردش کرنے والے نظریات کو تقویت دیتی ہے کہ اہرام کا مقصد صرف مقبرہ ہونا نہیں تھا بلکہ ان کا کوئی اور فنکشن بھی ہو سکتا ہے۔ کچھ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ ڈھانچے توانائی کے ذرائع کے طور پر کام کرتے تھے۔ موجد نکولا ٹیسلا نے ایک بار قیاس کیا تھا کہ اہرام زمین کی قدرتی توانائی کو جمع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ انجینئر کرسٹوفر ڈن نے اپنی کتاب میں تجویز دی کہ عظیم اہرام ایک دیو ہیکل مشین کے طور پر کام کرتا تھا جو زلزلے کے جھٹکوں کو توانائی میں بدل سکتا تھا۔
اس تحقیق کے نتائج سامنے آتے ہی سوشل میڈیا پر مختلف قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں۔ کچھ صارفین نے اس دریافت کو تاریخ کی سب سے اہم دریافتوں میں سے ایک قرار دیا، جبکہ کچھ نے اسے کسی قدیم تہذیب یا اجنبی ٹیکنالوجی سے جوڑ دیا۔
کچھ محققین کا کہنا ہے کہ اہرام کی تعمیر میں صرف اشرافیہ نہیں بلکہ عام مزدور بھی شامل تھے، جیسا کہ مزدوروں کی باقیات سے پتہ چلتا ہے۔ تاہم، ابھی بھی مرکزی دھارے کے ماہرین یہ مانتے ہیں کہ اہرام 2500 قبل مسیح میں عام اوزار اور ریمپ کے ذریعے بنائے گئے تھے۔
کھفری پروجیکٹ ٹیم نے اس جگہ کی کھدائی میں دلچسپی ظاہر کی ہے، لیکن مصری حکومت عام طور پر ایسی کھدائیوں کے حوالے سے محتاط رہتی ہے جو اہرام کے تاریخی مقصد کے سرکاری موقف کو چیلنج کر سکیں۔ اس لیے، یہ راز فی الحال دفن ہی رہے گا۔