اپریل 7, 2025 2:11 شام

English / Urdu

Follw Us on:

آئی ایم ایف اور حکومتی پالیسیاں، عوام کو ریلیف کب ملے گا؟

عاصم ارشاد
عاصم ارشاد

حکومت نے عوام کو بجلی کے نرخوں میں نمایاں کمی کی امید دلائی تھی، لیکن بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی سخت شرائط کے باعث یہ وعدہ تاحال ادھورا ہے۔ پاکستان اس وقت 7 ارب ڈالر کے توسیعی فنڈ سہولت (EFF) کے تحت پہلے دو سالہ جائزے کے عمل میں ہے اور آئی ایم ایف کے ساتھ اسٹاف لیول معاہدے (SLA) پر جاری مذاکرات حکومتی ریلیف پیکیج کی راہ میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

توقع کی جارہی تھی کہ وزیراعظم 23 مارچ کو قوم سے خطاب میں بجلی کے نرخوں میں 8 روپے فی یونٹ کمی کا اعلان کریں گے۔ تاہم یومِ پاکستان کی تقریر میں اس حوالے سے کوئی اعلان نہیں کیا گیا، جس سے عوام میں بے چینی پیدا ہوئی۔

وزیراعظم نے ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی، جس میں توانائی کے شعبے سے متعلق امور کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اجلاس میں وزیراعظم کے معاون خصوصی توقیر شاہ، وزیر توانائی اویس لغاری، احد چیمہ، اور دیگر اعلیٰ حکام شریک تھے۔

واضح رہے کہ حکومت نے 15 مارچ کو اعلان کیا تھا کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کو موجودہ سطح پر برقرار رکھا جائے گا، حالانکہ پیٹرولیم ڈویژن اور آئل ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے پیٹرول کی قیمت میں 13 روپے فی لیٹر کمی کی تجویز دی تھی۔ حکومت کا مؤقف تھا کہ اس ممکنہ مالیاتی مارجن کو بجلی صارفین کو ریلیف دینے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔

اسی تناظر میں بجلی کے نرخوں میں کمی کے لیے ایک جامع حکمت عملی تشکیل دی جا رہی تھی، جس میں عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کو مدنظر رکھتے ہوئے عوام کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچانے کا ارادہ تھا۔ تاہم اس پیکیج کو حتمی منظوری کے لیے آئی ایم ایف کے سامنے پیش کیا گیا، جس نے اس پر اعتراضات اٹھائے۔

حکومت نے 4 سے 14 مارچ کے دوران ہونے والے مذاکرات میں آئی ایم ایف کے ساتھ ایک منصوبہ شیئر کیا، جس کے تحت انڈیپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (IPPs) کے معاہدوں پر نظرثانی کے ذریعے ٹیرف میں تقریباً 2 روپے فی یونٹ کمی کی تجویز دی گئی تھی۔
بعد ازاں حکومت نے پیٹرول اور ڈیزل پر پیٹرولیم لیوی میں 10 روپے اضافے کا فیصلہ کیا، جس کے نتیجے میں فنانس ایکٹ 2025 کے تحت زیادہ سے زیادہ 70 روپے فی لیٹر لیوی مقرر کی گئی۔ اس اقدام سے توقع کی جا رہی تھی کہ بجلی کے نرخوں میں مزید 2 سے 2.5 روپے فی یونٹ کمی کی جا سکے گی۔

حکومتی حکام کے مطابق چونکہ یہ ایک ‘ریونیو نیوٹرل’ حکمت عملی تھی (یعنی اس میں اضافی سبسڈی شامل نہیں تھی) اس لیے آئی ایم ایف کو اس پر اعتراض نہیں ہونا چاہیے تھا۔ تاہم آئی ایم ایف نے پاکستان کی مجموعی مالی صورتحال کو دیکھتے ہوئے اس پیکیج کی افادیت پر سوالات اٹھائے، جس کے باعث حکومت کو اس پر مزید غور کرنا پڑا۔

بجلی کے نرخوں میں کمی کے راستے میں ایک اور بڑی رکاوٹ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) کے قواعد و ضوابط ہیں۔ نیپرا کو ملک کی بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (DISCOs) کی جانب سے سالانہ بیس ٹیرف پر نظرثانی کی درخواستیں موصول ہو چکی ہیں۔

حکومت نے سول-ملٹری ٹاسک فورس کے ساتھ مشاورت کے بعد 6 سے 7 آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کی کوشش کی، مگر نیپرا کی منظوری کے بغیر اس عمل کو مکمل کرنا ممکن نہیں تھا۔

مزید برآں سولر نیٹ میٹرنگ پالیسی میں متوقع تبدیلیاں بھی نیپرا کے فیصلوں پر اثر انداز ہو سکتی ہیں، جو مستقبل میں گھریلو اور صنعتی صارفین کے بجلی کے نرخوں میں کمی یا اضافے کا باعث بن سکتی ہیں۔

وزیر پیٹرولیم علی پرویز ملک نے بات کرتے ہوئے تسلیم کیا کہ پاکستان میں خطے کی مہنگی ترین بجلی معیشت کے لیے بڑا مسئلہ بن چکی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت اضافی وسائل بروئے کار لاتے ہوئے آئندہ چند ہفتوں میں بجلی کی قیمتوں میں واضح کمی کرے گی۔

انہوں نے کہا کہ حکومت پیٹرولیم لیوی کے ذریعے اضافی رقم اکٹھی کر رہی ہے، تاکہ بجلی کے نرخوں میں کمی ممکن بنائی جا سکے۔ ‘یہ اسی سمت ایک چھوٹا سا قدم ہے، لیکن جو بھی اضافی وسائل حاصل کیے جائیں گے، وہ بجلی کے نرخوں میں کمی کے لیے استعمال ہوں گے۔ حکومت اپنے وسائل سے بھی اس میں تعاون کرے گی تاکہ عوام کو زیادہ سے زیادہ ریلیف دیا جا سکے۔’

سابق وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے پاکستان میں بجلی کی قیمتوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بنگلہ دیش، بھارت، سری لنکا، انڈونیشیا، تھائی لینڈ، کمبوڈیا، جنوبی افریقہ اور کینیا جیسے ممالک میں بجلی پاکستان کے مقابلے میں سستی ہے، جس کی وجہ سے سرمایہ کاری ان ممالک میں جا رہی ہے اور پاکستان پیچھے رہ گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب دنیا بھر میں بجلی کے نرخ کم ہیں، تو پاکستان میں بجلی اتنی مہنگی کیوں ہے؟ آپ کی گیس اور بجلی میں ایسی کیا خاصیت ہے کہ آپ انہیں عالمی معیار سے مہنگے داموں بیچ رہے ہیں؟ اس کی واحد وجہ یہ ہے کہ ہماری پالیسیاں ناکام، یوٹرن سے بھرپور اور لالچ پر مبنی ہیں۔

مرکزی تنظیم تاجران پاکستان و پاکستان بزنس فورم کے صدر محمد کاشف چوہدری نے بجلی کی بنیادی قیمت میں کمی اور بلوں پر لگائے گئے 13 قسم کے ٹیکسوں کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حکمرانوں نے فوری طور پر بجلی کی قیمتیں کم نہ کیں تو عید الفطر کے بعد دوبارہ ملک گیرسطح پر عوامی تحریک شروع کریں گے ۔

انہوں نے کہا کہ بجلی کی قیمتوں میں ظالمانہ اضافے میں کمی کرنے کے لیے ہم نے 28 اگست کو تاریخ ساز ہڑتال کی اور بعد میں تاجروں اور عوام کے مسلسل جدوجہد کے نتیجے میں حکمرانوں کو آئی پی پیز سے بات چیت کرنے پر مجبور کیا، اس سے پہلے حکومت آئی پی پیز سے بات کرنے کو شجر ممنوعہ قرار دیتی تھی۔

کاشف چوہدری نے کہا کہ آئی پی پیز معاہدوں پر نظر ثانی سے اربوں روپے کی بچت شروع ھو چکی ہے، لیکن اربوں روپے کی بچت عوام تک ریلیف کی شکل میں منتقل ہونا تا حال شروع نہیں ہوا۔ ہمارا مطالبہ کرتے ہے کہ بجلی کی قیمت میں فوری کمی کی جائے، بجلی کے ٹیرف اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کیے بغیر معیشت کا پہیہ کسی صورت نہیں چل سکتا اور نہ ہی عام آدمی کو ریلیف مل سکتا ہے۔

دوسری جانب وزیراعظم نے اجلاس میں بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں (DISCOs) کی نجکاری کے عمل کو تیز کرنے کی ہدایت کی تاکہ سرکاری اداروں کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے پیدا ہونے والے مالی نقصانات کو کم کیا جا سکے۔

انہوں نے توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے لیے ایک جامع حکمت عملی مرتب کرنے پر زور دیا، جس میں پاور، واٹر ریسورسز اور پیٹرولیم کے درمیان بہتر کوآرڈینیشن کی ضرورت پر بھی بات کی گئی۔

حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ بجلی کے نرخوں میں کمی کے لیے ایک مضبوط پیکیج تیار کر رہی ہے، جس کا جلد عوامی سطح پر اعلان کیا جائے گا۔ تاہم اس میں کئی چیلنجز درپیش ہیں، جن میں آئی ایم ایف کی شرائط، نیپرا کی ریگولیٹری کارروائیاں اور مالی وسائل کی دستیابی شامل ہیں۔

عوام کے لیے سب سے بڑا سوال یہی ہے کہ کیا حکومت اپنے وعدے پر عمل کر پائے گی یا یہ محض ایک اور سیاسی اعلان ثابت ہوگا؟ اب یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ بجلی کے نرخوں میں کمی حقیقت بنے گی یا یہ بھی ایک خواب رہے گا۔

عاصم ارشاد

عاصم ارشاد

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس