مسلسل 15 ماہ تک غزہ پر قبضہ کی ہر کوشش میں ناکامی کے بعد مذاکرات کے ذریعے سیزفائر پر مجبور ہونے والا اسرائیل اپنا ایک نقشہ سامنے لایا ہے جس پر ہنگامہ برپا ہے، اس نقشہ میں فلسطین، اردن، شام اور لبنان کے وسیع علاقے اسرائیل میں دکھائے گئے ہیں۔
یہ نقشہ نہ صرف فلسطینی عوام کی سرزمین پر اسرائیل کے دعوؤں کو مزید مستحکم کرنے کی ایک کوشش نظرآتا ہے بلکہ عرب دنیا میں اسرائیل کے بڑھتے ہوئے توسیعی پسندانہ عزائم کی جانب ایک واضح اشارہ بھی ہے۔ نقشہ جاری ہونے کے بعد عالمی برادری کی طرف سے اسرائیل کی اس جارحیت پر سخت ردعمل بھی سامنے آیا۔
اس نقشے میں اسرائیل کی تاریخی سرحدوں کا دعویٰ کیا گیا ہے جس میں فلسطین، شام کی گولان کی پہاڑیاں، لبنان اور اردن کے کچھ حصے شامل ہیں، اس نقشے کی اشاعت نے عالمی سطح پر ایک نئی بحث کا آغاز کردیا ہے کہ کیا اب اسرائیل نقشے میں ظاہر کیے گئے علاقوں پر مستقل قبضہ جمانے کے لیے خانہ جنگی کرے گا؟ یا پھر اس کے عزائم ان علاقوں سے آگے بھی بڑھیں گے؟
برطانوی خبررساں ادرے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے برمنگھم یونیورسٹی میں ڈاکٹریٹ کے محقق عمر کریم نے کہا کہ “یہودی مذہب کے مطابق گریٹر اسرائیل سے مراد مشرقِ وسطی میں وہ تمام قدیمی علاقے ہیں جو سلطنتِ عثمانیہ کا حصہ تھے اور جہاں یہودی آباد تھے۔”
سوال یہ ہے کہ کیا اسرائیل ‘گریٹر اسرائیل’ کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے اقدامات کر رہا ہے؟ یا یہ موجودہ پوزیشن کو مزید مستحکم کرنے کے لیے محض ایک سیاسی چال ہے؟
اسرائیلی وزیر مالیات بیزلیل سموٹریچ کا کہنا ہے کہ “یہ نقشہ اس بات کا اشارہ ہے کہ اسرائیل کو اپنی تاریخی سرحدوں میں واپس آنا چاہیے، ان سرحدوں میں فلسطین کے علاوہ اردن اور لبنان کے علاقے بھی شامل ہونے چاہئیں۔” بیزلل سموٹریچ کے اس بیان سے اسرائیل کے دائیں بازو کے حامی خوش ہوئے تو عرب ممالک میں غم و غصے کی لہر واضح دکھائی دی۔
عرب اسرائیل تنازعات پر گہری نظر رکھنے والے سینئر صحافی و تجزیہ کار سلیم بخاری نے کہا کہ “اسرائیل وہ واحد ملک ہے جس کے پاس اپنے ہمسائیہ ممالک کی جغرافیہ میں تبدیلی کرنے کا یکطرفہ اختیار موجود ہے، اس کو یہ اعزاز ان تمام ممالک نے دیا ہے جو انسانی حقوق، جمہوریت اور انسانیت کے اصولوں کا دعویٰ کرتے ہیں، اس لیے یہ تمام ممالک اسرائیل کے جارحانہ اقدمات پر خاموش ہیں”۔
عرب ممالک کا ردعمل
اسرائیل کی جانب سے جاری کردہ نقشے کے سامنے آتے ہی عرب ممالک میں ایک بھونچال سا آ گیا۔ قطری وزارت خارجہ نے اس اقدام کو “بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی” قرار دیتے ہوئے خبردار کیا کہ یہ خطے میں امن کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔
متحدہ عرب امارات نے اس نقشے کو “مقبوضہ علاقوں کی توسیع” اور “بین الاقوامی قوانین کی پامالی” قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اس پر فوری اقدامات کریں۔
سعودی وزارت خارجہ نے اسرائیل کے اس اقدام کو “انتہاپسندانہ حرکت” قرار دیتے ہوئے عالمی برادری سے درخواست کی کہ اسرائیل کو عالمی قوانین کی پاسداری کرنے پر مجبور کیا جائے۔
سعودی عرب نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے کہا کہ اس اقدام کا مقصد نہ صرف اسرائیل کے قبضے کو مستحکم کرنا ہےبلکہ یہ دوسرے ممالک کی خودمختاری پر کھلا حملہ ہے جو خطے کے مستقبل کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔
فلسطین اور اردن نے اسرائیل کے نئے نقشے کی شدید الفاظ میں مذمت کی، فلسطینی حکام کا کہنا ہے کہ یہ اقدام فلسطینی حقوق کی پامالی اور خطے میں کشیدگی کا سبب بنے گا جبکہ اردن نے اسے امن معاہدے کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ پورے خطے کے استحکام کے لیے سنگین خطرہ ہے۔
مغربی ممالک کا ردِ عمل
نقشے کے منظر عام پر آنے کے بعد مغربی ممالک نے بھی اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے، لیکن ان کے ردعمل میں واضح سختی نظر نہیں آئی۔ امریکہ اور یورپی یونین نے اسرائیل کی توسیع پسندانہ پالیسیوں پر بات تو کی مگر عملی طور پر اسرائیل پر کوئی دباؤ ڈالنے کی کوشش نہیں کی۔
بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک اسرائیل کے ‘گریٹر اسرائیل’ کے منصوبے کو غیر رسمی طور پر حمایت فراہم کر سکتے ہیں جس سے خطے کی صورتحال مزید پیچیدہ ہو سکتی ہے۔
عالمی سطح پر یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا اسرائیل اپنے توسیعی عزائم کو عملی شکل دے سکتا ہے؟ اور اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں مشرق وسطیٰ میں امن کا کیا ہوگا؟
‘گریٹر اسرائیل’ کا تصور
یہ نقشہ اسرائیل میں موجود ‘گریٹر اسرائیل’ کے تصور کی عکاسی کرتا ہے جس میں اسرائیل کی موجودہ سرحدوں سے باہر کے علاقے بھی شامل کیے گئے ہیں۔ یہ نظریہ صہیونیت کے بانی ‘تھیوڈور ہرزل’ کے نظریے سے جڑا ہوا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ یہودیوں کی ریاست صرف فلسطین تک ہی محدود نہیں ہوگی بلکہ اس کا دائرہ دریائے نیل سے فرات تک پھیلا ہوگا، اس تصور کا آغاز اسرائیل کی داخلی سیاست میں ایک اہم عنصر کے طور پر ہوتا جا رہا ہے۔

واضح رہے کہ اسرائیلی وزیر مالیات بیزلیل سموٹریچ نے 2023 میں اس تصور کو ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے اردن کو اسرائیل کا حصہ قرار دیا تھا جس سے اردن کے ساتھ اسرائیل کے امن معاہدے کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو گئے تھے۔ اس اقدام نے اردن کے ساتھ اسرائیل کے موجودہ تعلقات میں سنگین مسائل پیدا کیے ہیں، اس سے پورے خطے میں امن کی صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے۔
گریٹر اسرائیل کا تصور اور عالمی امن
ایک جانب اسرائیل پر ‘گریٹر اسرائیل’ بننے کا جنون طاری ہے تو دوسری جانب ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر اسرائیل کے توسیعی عزائم کو عالمی سطح پر روکنے کے لیے مؤثر اقدامات نہ کیے گئے تو خطے میں ایک نیا بحران پیدا ہو سکتا ہے جو کہ عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ بن سکتا ہے۔ اسرائیل کا یہ متنازع نقشہ نہ صرف فلسطین اور اسرائیل کے درمیان موجود تنازع کو مزید بڑھا سکتا ہے، بلکہ یہ دیگر عرب ممالک کے ساتھ اسرائیل کے سفارتی تعلقات کو بھی پیچیدہ بنا سکتا ہے۔