امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نئے ٹیکسوں کی وجہ سے امریکی اسٹاک مارکیٹ میں بڑی کمی آئی ہے اور صرف دو دنوں میں سرمایہ کاروں کے 60 کھرب ڈالر سے زیادہ ڈوب گئے۔
صدر ٹرمپ نے پاکستان سمیت دنیا کے بہت سے ممالک پر نئے تجارتی ٹیکس لگائے ہیں۔ ان کے اس فیصلے سے دنیا کا تقریباً ہر حصہ متاثر ہوا ہے، یہاں تک کہ انٹارکٹیکا کے قریب وہ غیر آباد جزیرے بھی جہاں صرف پینگوئن رہتے ہیں اور جہاں شاید دس سال پہلے انسان گئے تھے۔
امریکی میڈیا کے مطابق ان ٹیکسوں کے اعلان کے بعد دو دنوں میں سرمایہ کاروں کے اسٹاک مارکیٹ میں لگے 60 کھرب ڈالر سے زیادہ ڈوب گئے۔ اس کے علاوہ، امکان ہے کہ امریکی ٹیکسوں کی وجہ سے چینی مصنوعات اب یورپی بازاروں میں زیادہ فروخت ہوں گی۔
ٹرمپ کے ٹیکسوں کے اعلان کے بعد امریکی اسٹاک مارکیٹ میں پچھلے پانچ سالوں کی سب سے بڑی کمی دیکھی گئی۔ ڈاؤ جونز میں 5 فیصد، ایس اینڈ پی 500 میں 4.6 فیصد اور نیسڈیک میں 4.7 فیصد کمی ہوئی۔
لندن اسٹاک ایکسچینج میں فٹسی ہنڈریڈ انڈیکس میں کووڈ وبا کے بعد سے ریکارڈ 5 فیصد، جرمنی کی اسٹاک مارکیٹ میں 4 فیصد اور جاپان میں 2.8 فیصد کمی ہوئی۔ تجارتی جنگ کے خدشات بڑھنے سے تیل کی قیمتیں 8 فیصد گر کر چار سال کی کم ترین سطح پر پہنچ گئیں۔
امریکی سینٹرل بینک کے سربراہ جیروم پاویل نے مہنگائی اور معاشی ترقی کی رفتار میں کمی سے خبردار کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کی ضد کے باوجود، جیروم پاویل نے فی الحال شرح سود میں کمی کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
آئی ایم ایف کی مینیجنگ ڈائریکٹر کرسٹالینا جارجیوا کا کہنا ہے کہ معاشی ترقی کی سست رفتار کے وقت امریکی ٹیکس عالمی معیشت کے لیے خطرہ ہیں۔
برطانیہ، آسٹریلیا اور اٹلی کے وزرائے اعظم نے بھی تجارتی جنگ کو عالمی تجارت کے لیے بڑا خطرہ قرار دیا ہے اور معاشی استحکام کے لیے مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا ہے۔