2025 کے پہلے تین مہینوں (1 جنوری سے 31 مارچ) کے دوران راولپنڈی کی فیملی عدالتوں میں خاندانی جھگڑوں کے ریکارڈ تعداد میں مقدمات دائر کیے گئے۔
اس مدت میں کل 1,451 نئے کیسز رجسٹر ہوئے جن میں نان و نفقہ، بچوں کی تحویل، حق مہر اور جہیز کی واپسی جیسے معاملات شامل تھے۔
اس کے علاوہ 41 شوہروں نے عدالتوں سے رجوع کیا تاکہ اپنی بیویوں کو واپس گھر لانے کا حکم دلوایا جا سکے، جو ناراض ہو کر چلی گئی تھیں۔
پہلی بار 21 عیسائی خواتین نے بھی طلاق کے لیے درخواستیں دائر کیں۔ یہ اقدام ان قانونی اصلاحات کے بعد ممکن ہوا جن کے تحت اب عیسائی خواتین کو پرانی اور پیچیدہ منسوخیِ نکاح کی شرط کے بغیر علیحدگی کی اجازت حاصل ہو گئی ہے۔
ان تین مہینوں میں عدالتوں نے 106 خواتین کو خلع کی بنیاد پر طلاق دی اور 310 شوہروں کو بیویوں اور بچوں کے اخراجات ادا کرنے کا حکم دیا۔
عدالتوں نے 13 ناراض جوڑوں کو دوبارہ ملا دیا اور 75 بچوں کو باپ کی تحویل سے لے کر ماں کو واپس دیا۔
عدالتی ذرائع کے مطابق روزانہ 5 سے 8 نئے کیسز دائر کیے جا رہے ہیں، اور بعض دنوں میں یہ تعداد 15 سے 20 تک پہنچ جاتی ہے۔
عدالتوں نے 55 جوڑوں کے درمیان صلح بھی کروا دی، جس کے بعد ان کے مقدمات خارج کر دیے گئے۔
fa
فیملی لاء کے وکلاء کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا جیسے فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک، میسنجر اور یوٹیوب نے شادی شدہ زندگی کے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ آج کل کے نوجوانوں کے پاس جدید موبائل فونز ہونے سے بھاگ کر شادی کرنے اور پسند کی شادیوں کے واقعات میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
وکیل سبطین بخاری کا کہنا ہے کہ خاندان میں شادیوں کے رواج کو دوبارہ فروغ دینا چاہیے۔ اگرچہ خاندان سے باہر شادی کرنا غلط نہیں، مگر والدین کو رشتے کی اچھی طرح جانچ پڑتال کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جھوٹ پر مبنی شادیاں زیادہ دیر نہیں چلتیں، خاص طور پر وہ شادیاں جو بھاگ کر کی گئی ہوں، وہ اکثر چھ ماہ سے ایک سال میں ہی ختم ہو جاتی ہیں۔
ہیومن رائٹس سیل کی سیکریٹری ایڈووکیٹ طیبہ عباسی نے کہا کہ لڑکیوں کو موبائل فونز تک رسائی ہونی چاہیے، مگر ان کے استعمال پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ انہوں نے تعلیم اور والدین کی مرضی سے ہونے والی شادیوں کو فروغ دینے کی تجویز دی۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ اکثر خواتین شادی کے بعد یہ جانتی ہیں کہ ان کے شوہر، جنہوں نے خود کو امیر یا ملازمت پیشہ ظاہر کیا ہوتا ہے، حقیقت میں بے روزگار یا جرائم میں ملوث ہوتے ہیں، جس سے گھریلو جھگڑے شروع ہو جاتے ہیں۔
قانونی ماہرین نے تجویز دی ہے کہ پسند کی شادیوں کے لیے حق مہر کم از کم 25 لاکھ روپے، اور ماہانہ نان و نفقہ 15 ہزار روپے مقرر کیا جائے۔ اگر طلاق ہو جائے تو شوہر کو 5 لاکھ روپے اضافی بھی ادا کرنا پڑے۔ ان کا ماننا ہے کہ ایسے اقدامات سے خاندانی نظام کو ٹوٹنے سے بچایا جا سکتا ہے۔