یونیورسٹی آف کیلیفورنیا، سان ڈیاگو کی ایک نئی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ جدید اے آئی ماڈل جیسے جی پی ٹی 4۔5 اب اتنے موثر انداز میں بات چیت کرتے ہیں کہ وہ 73 فیصد انسانوں کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔
اس مطالعے میں محققین نے تین فریقی ٹیورنگ ٹیسٹ استعمال کیا، جس میں ایک انسان، ایک اے آئی، اور ایک پوچھ گچھ کرنے والا شامل تھا۔ اس ٹیسٹ کا مقصد یہ جانچنا تھا کہ پوچھنے والا کس حد تک اے آئی کو انسان سمجھتا ہے۔ نتائج کے مطابق، جی پی ٹی 4۔5 جب ایک خاص “پرسونا” پرامپٹ استعمال کرتا ہے، تو وہ 73 فیصد چیٹ سیشنز میں انسان کے طور پر پہچانا گیا۔
اسی طرح، میٹا کا نیا لیاما تھری ماڈل بھی 56 فیصد کی کامیابی کے ساتھ اس حد کو عبور کرتا ہے۔
دوسری جانب، جی پی ٹی 4۔0، جو موجودہ عام استعمال میں آنے والے چیٹ بوٹس کی نمائندگی کرتا ہے، کم از کم ہدایات کے تحت صرف 21 فیصد مواقع پر انسان کے طور پر پہچانا گیا۔
تحقیق کے سربراہ کیمرون جونز کا کہنا ہے کہ ان نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ جدید اے آئی ماڈلز مخصوص حکمت عملیوں کے تحت نہ صرف انسانی طرزِ گفتگو کی مؤثر نقل کر سکتے ہیں بلکہ وہ اصل انسان سے زیادہ قائل بھی لگ سکتے ہیں، خاص طور پر جب ایک خاص شخصیت اپنانے کی ہدایت دی جائے۔
یہ نتائج اس پرانے سوال کو بھی تازہ کرتے ہیں کہ کیا ٹیورنگ ٹیسٹ اب بھی “انسان جیسی ذہانت” کو جانچنے کا ایک مؤثر پیمانہ ہے، یا یہ صرف اے آئی کی نقل کرنے کی اعلیٰ صلاحیت کا عکاس بن چکا ہے؟
تحقیق نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ ہم انسان، ایک فصیح، روانی سے بولنے والے چیٹ بوٹ سے کتنی آسانی سے متاثر ہو جاتے ہیں۔ کیا یہ ماڈل واقعی کمپیوٹیشنل ذہانت کی ایک نئی دہلیز کو چھو رہے ہیں، یا ہم صرف ان کی باتوں کی چالاکی سے فریب کھا رہے ہیں؟
ماہرین کا خیال ہے کہ اس تیزی سے ترقی کرتے ہوئے منظرنامے میں AI ماڈلز جلد ہی کسٹمر سروس، ڈیجیٹل صحبت، اور دیگر کئی شعبوں میں انسانوں کی جگہ لے سکتے ہیں، اور اس بات پر غور کرنا ضروری ہو گا کہ ہم ان “انسان نما” مشینوں کے ساتھ کس طرح تعلق استوار کرتے ہیں۔