اپریل 7, 2025 10:04 شام

English / Urdu

Follw Us on:

امریکی ٹیرف کے اثرات: انڈیا کی اقتصادی ترقی کی رفتار سوالات کی زد میں آگئی

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
امریکی ٹارفس کے اثرات: انڈیا کی اقتصادی ترقی کی رفتار سوالات کی زد میں آگئی

انڈیا نے اپنے مالی سال 2025/26 کے لیے 6.3 فیصد سے 6.8 فیصد تک کی ترقی کی پیش گوئی کی تھی لیکن اس کے باوجود عالمی سطح پر امریکی ٹیرف کے اثرات کا خدشہ اب بھی برقرار ہے۔ 

حکومت کے اعلیٰ حکام کے مطابق اگر تیل کی قیمتیں 70 ڈالر فی بیرل سے نیچے رہیں تو انڈیا کی معیشت اپنے متوقع نمو کے ہدف کو حاصل کر سکتی ہے۔ تاہم، متعدد نجی ماہرینِ معیشت نے اپنے تخمینوں میں کمی کرتے ہوئے انڈیا کی ترقی کی شرح کو 6.1 فیصد تک محدود کر دیا ہے۔

یہ خدشات اس وقت مزید بڑھ گئے جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انڈیا سمیت دنیا کے مختلف ممالک کے خلاف نئے تجارتی ٹارفز عائد کیے۔ ان ٹارفز نے عالمی تجارت کو ہلا کر رکھ دیا اور ایشیا کے بڑے اسٹاک انڈیکس میں مندی کا رجحان دیکھا گیا۔

ٹرمپ کے 26 فیصد ٹارفز نے انڈیا کی معیشت کے مختلف شعبوں پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔

ان تمام ٹارفز کا سب سے زیادہ اثر انڈیا کی ڈائمنڈ انڈسٹری پر پڑا ہے جو اپنی ایک تہائی برآمدات صرف امریکا کو بھیجتی ہے۔ اس سے ہزاروں افراد کی روزگار پر سوالیہ نشان بن ہے۔ انڈیا کے حکام نے اس صورتِ حال پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور صنعتکاروں کے ساتھ مشاورت کا آغاز کر دیا ہے تاکہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے تدابیر وضع کی جا سکیں۔

یہ بھی پڑھیں:امریکی ٹیرف اثر دکھانے لگا: ‘اسٹاک ایکسچینج کا سیاہ دن’، کاروبار بند ہوگیا

حکومت کے ایک اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ “ہم نے پہلے ہی وزارت تجارت سے متعدد تجاویز موصول کی ہیں جن میں برآمدی صنعتوں کو سہولت دینے کے لیے شرح سود کی سبسڈی، نئے بازاروں میں توسیع اور بینکوں سے زیادہ قرضوں کی فراہمی جیسے اقدامات شامل ہیں۔”

انڈیا کی حکومت نے پہلے ہی 2025/26 کے مالی سال کے بجٹ میں برآمدات کے شعبے کی حمایت کے لیے مناسب اقدامات کیے ہیں۔ تاہم، امریکا کے نئے ٹارفز کے باعث انڈیا کے حکام نے مزید امدادی تدابیر پر غور شروع کر دیا ہے۔ 

ایک اعلیٰ حکومتی اہلکار کا کہنا ہے کہ “ہم اس بات کا جائزہ لے رہے ہیں کہ ان ٹارفز کا اثر انڈیا کی برآمدات اور دیگر شعبوں پر کس حد تک پڑے گا اور ضرورت پڑنے پر ہم اضافی اقدامات بھی کر سکتے ہیں۔”

لیکن انڈیا کی حکومت نے ابھی تک ان ٹارفز کے جواب میں کوئی سخت ردعمل ظاہر کرنے کا فیصلہ نہیں کیا۔ حکام کا کہنا ہے کہ وہ اس معاملے پر مذاکرات کے ذریعے حل کی تلاش میں ہیں تاکہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات خراب نہ ہوں۔

حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ان شعبوں کا ہے جو محنت طلب کاموں پر منحصر ہیں، جیسے کہ ٹیکسٹائل، جوتے اور زرعی مصنوعات۔ ان شعبوں میں روزگار کی بہت بڑی تعداد وابستہ ہے اور امریکی ٹارفز کے باعث ان کے لئے مزید مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ 

ان شعبوں میں کام کرنے والے لاکھوں افراد کی روزگار کی صورتحال پر منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

لازمی پڑھیں:امریکی ٹیرف: 50 سے زائد ممالک کا وائٹ ہاؤس سے تجارتی مذاکرات کا مطالبہ

انڈیا کے حکام کا کہنا ہے کہ وہ امریکی ٹارفز کے اثرات کو کم کرنے کے لیے مزید اقدامات کرنے کے لیے تیار ہیں۔ ان اقدامات میں برآمدات کو فروغ دینے کے لیے ٹیکس ریلیف، قرضوں کی فراہمی اور دیگر تجارتی سہولتیں شامل ہیں۔ 

حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اپنے اقتصادی اہداف کو حاصل کرنے کے لیے پُرعزم ہے چاہے عالمی سطح پر تجارتی رکاوٹوں کا سامنا کیوں نہ ہو۔

ایک حکومتی اہلکار نے بتایا کہ “ہم نے بجٹ میں برآمدات کو فروغ دینے کے لیے جو اسکیمیں رکھی ہیں، ان کی مدد سے ہم عالمی مارکیٹ میں انڈیا کی پوزیشن کو مستحکم کر سکتے ہیں۔ ہم اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ ہماری معیشت امریکی ٹارفز یا کسی بھی عالمی بحران سے زیادہ متاثر نہ ہو۔”

اگرچہ انڈیا کے حکام کی جانب سے یہ دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ انڈیا عالمی سطح پر ہونے والی تجارتی کشمکش سے محفوظ رہ سکتا ہے لیکن عالمی ماہرینِ معیشت اس بات پر متفق نہیں ہیں کہ انڈیا کی معیشت پر ان ٹارفز کا اثر نہیں پڑے گا۔ 

بعض ماہرین نے انڈیا کی معیشت کے لیے ترقی کی شرح میں کمی کی پیش گوئی کی ہے جبکہ کچھ نے اسے 6.1 فیصد تک محدود کر دیا ہے۔

یہ وقت انڈیا کے لیے ایک چیلنج سے کم نہیں ہے۔ ایک طرف امریکی ٹارفز نے انڈیا کی معیشت کے سامنے مشکلات کھڑی کر دی ہیں، دوسری طرف حکومت نے ان مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے مختلف اقدامات کا آغاز کیا ہے۔ 

انڈیا کو نہ صرف اپنے برآمدی شعبے کو بچانا ہے بلکہ عالمی اقتصادی تعلقات میں اپنی پوزیشن کو بھی مستحکم رکھنا ہے۔

مزید پڑھیں: امریکی ٹیرف اثر دکھانے لگا: ‘اسٹاک ایکسچینج کا سیاہ دن’، کاروبار بند ہوگیا

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

متعلقہ پوسٹس