امریکا کی نامور یونیورسٹیوں میں پاکستانی اور دیگر مسلم ممالک کے طلبا کے ویزے ایک لمحے میں منسوخ کر دیے گئے ہیں اور یہ فیصلہ بغیر کسی پیشگی اطلاع یا قانونی کارروائی کے کیا گیا ہے۔
اس اقدام نے عالمی سطح پر غم و غصے کی لہر دوڑادی ہے اور یونیورسٹیوں میں بے چینی اور اضطراب کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔
امریکی میڈیا کے مطابق یہ ویزے منسوخ کرنے کا عمل نہ صرف امریکی حکومت کی جانب سے کیا گیا ہے بلکہ اس میں خاص طور پر ان طلبا کو نشانہ بنایا گیا ہے جو فلسطینی عوام کے حقوق کے لیے آواز اٹھاتے رہے ہیں۔
دلچسپ بات تو یہ ہے کہ کچھ طلبا ایسے بھی ہیں جنہوں نے کسی مظاہرے میں حصہ نہیں لیا پھر بھی ان کے ویزے منسوخ کر دیے گئے۔ یہ صورت حال طلبا اور تعلیمی اداروں کے لیے تشویش کا باعث بن گئی ہے۔
اس کے علاوہ جن تعلیمی اداروں میں یہ ویزے منسوخ کیے گئے ہیں ان میں ہارورڈ، اسٹینفورڈ، یو سی ایل اے اور یونیورسٹی آف مشیگن جیسے بڑے ادارے شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:‘امریکا کو فوجی اڈے دیے تو سنگین نتائج کا سامنا کرو گے’ ایران کی مسلم ممالک کو دھمکی
یو سی ایل اے میں 12 طلبا اور گریجویٹس کے ویزے منسوخ ہوئے ہیں جبکہ یونیورسٹی آف مشیگن کے ایک طالب علم کو ملک چھوڑنا پڑا۔
ان ویزوں کی منسوخی کی سب سے بڑی وجہ سیوس سسٹم کے آڈٹ کو بتایا جا رہا ہے۔
تعلیمی اداروں اور انسانی حقوق کے کارکنوں نے اس عمل پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور قانونی کارروائی نہ ہونے کے سبب اس عمل کو غیر منصفانہ قرار دیا ہے۔
دوسری جانب یونیورسٹیز نے اپنے طلبا کو قانونی مدد فراہم کرنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں، جبکہ طلبا تنظیموں نے اس معاملے کو سنجیدگی سے اٹھایا ہے اور ویزا منسوخیوں پر سوالات اٹھائے ہیں۔
بین الاقوامی طلبا اب بے یقینی کی کیفیت میں ہیں کہ کہیں ان کے ویزے بھی اچانک منسوخ نہ کر دیے جائیں۔
یہ فیصلہ امریکی حکومت کی جانب سے ایک قدم پیچھے جانے کی جانب اشارہ کرتا ہے جہاں طلبا کے حقوق اور آزادی اظہار کو بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔
اس صورتحال نے امریکا کے تعلیمی نظام پر گہرا اثر ڈالا ہے جو طلبا کے لیے ایک سوال چھوڑ رہا ہے کہ آیا وہ مستقبل میں اس نظام پر اعتماد کر سکتے ہیں یا نہیں۔
مزید پڑھیں:جنوبی چینی سمندر کا تنازع: کیا تیسری عالمی جنگ کی شروعات ہونے جا رہی ہے؟