عالمی یوم صحت کے موقع پر عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے پاکستان سمیت دنیا بھر کے شراکت داروں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ زچگی اور نوزائیدہ بچوں کی اموات میں کمی لانے کے لیے فوری اقدامات اور سرمایہ کاری کریں۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق پاکستان میں ہر روز 675 بچے اور 27 مائیں زچگی کی پیچیدگیوں کے باعث جان کی بازی ہار جاتی ہیں، جس سے سالانہ 9,800 ماؤں اور 246,300 نوزائیدہ بچوں کی اموات ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ ہر سال 190,000 سے زائد مردہ بچوں کی پیدائش بھی رپورٹ ہو رہی ہے۔
عالمی ادارہ صحت نے اس سال عالمی یوم صحت کا تھیم “صحت مند ابتدا، خوشحال مستقبل” رکھا ہے اور پاکستان سے کہا ہے کہ وہ ایک خوشحال مستقبل کے لیے صحت مند ماؤں اور بچوں کی اشد ضرورت کو تسلیم کرے۔
ڈبلیو ایچ او پاکستان کے نمائندے ڈاکٹر ڈپینگ لؤ کا کہنا تھا کہ “ایک زچہ یا نوزائیدہ بچے کی موت بھی بہت زیادہ ہے اور اگر ہم نے اب اقدامات نہ کیے تو اس کی قیمت ہمیں قوم کو بھگتنا پڑے گی۔”
اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ سالوں میں پاکستان میں زچگی سے ہونے والی اموات کی شرح میں نمایاں کمی آئی ہے۔ 2006 میں یہ شرح 276 فی 100,000 پیدائش تھی، جو 2024 میں کم ہو کر 155 رہ گئی۔
نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات 52 فی 1000 سے کم ہو کر 37.6 ہو گئی ہے، جب کہ مردہ بچوں کی پیدائش کی شرح بھی 39.8 سے کم ہو کر 27.5 فی 1000 ہو چکی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ماں اور بچے کی صحت پر ہر ایک امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری، 9 سے 20 ڈالر کی واپسی دیتی ہے۔ یہ سرمایہ کاری انسانی سرمائے، معاشی ترقی اور خوشحال معاشرے کی ضمانت ہے۔
پاکستان نے نومولود بچوں میں تشنج کے خلاف جنگ میں بھی اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ 80 فیصد پاکستانی آبادی ایسے علاقوں میں رہتی ہے جہاں تشنج کا پھیلاؤ فی ہزار پیدائش ایک کیس سے بھی کم ہے اور اسلام آباد، آزاد کشمیر، سندھ اور پنجاب جیسے علاقوں نے MNT کو مکمل طور پر ختم کر دیا ہے۔
تاہم، عالمی اور قومی SDG اہداف کے تحت 2030 تک زچگی کی شرح اموات کو 70 فی 100,000 اور نوزائیدہ اموات کو 12 فی 1000 تک لانے کے لیے مزید سرمایہ کاری اور حکومتی ترجیحات ضروری ہیں۔
ڈبلیو ایچ او نے حکومت پاکستان سے درخواست کی ہے کہ وہ خواتین کی تولیدی صحت، غذائیت، ذہنی صحت، تعلیم اور معاشی مواقعوں پر بھرپور توجہ دے تاکہ خواتین اپنی اور اپنے بچوں کی صحت سے متعلق بہتر فیصلے کر سکیں۔
ڈبلیو ایچ او نے اپنے عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ مل کر یہ یقینی بنائے گا کہ صحت کی سہولتیں سب کے لیے دستیاب ہوں اور کوئی بھی پیچھے نہ رہ جائے۔
یاد رہے کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) 1948 میں قائم کیا گیا تھا اور یہ اقوام متحدہ کا ادارہ ہے جو دنیا بھر میں صحت کو فروغ دینے، عالمی تحفظ فراہم کرنے اور کمزور طبقوں کی خدمت کے لیے اقوام،