پاکستان کی سیاسی تاریخ میں 9 اپریل 2022 صرف ایک تاریخ نہیں بلکہ ایک موڑ تھا۔ ایک ایسا موڑ جس پر آئینی و غیر آئینی بیانیے، سیاسی صف بندیاں، ریاستی ادارے اور عوامی شعور سب تقسیم ہو گئے۔ اُس رات عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا لیکن اس سے پہلے اور بعد میں جو کچھ ہوا اسے تحریکِ انصاف نے ‘رجیم چینج آپریشن’ کا نام دیا۔
کب کیا ہوا؟ کیسے ہوا؟ بچے بچے کو ازبر ہے مگر ٹائم لائن، شواہد اور بیانات کی روشنی میں دیکھا جائے تو بہت سارے نکات ابھی بھی قارئین سے پوشیدہ ہیں۔
مارچ 2022 میں عمران خان نے ایک عوامی جلسے میں ‘خفیہ خط’ لہرایا، جسے بعد ازاں ‘سائفر’ کہا گیا۔ یہ امریکی اہلکار ڈونلڈ لو کی مبینہ گفتگو پر مبنی تھا جس میں عمران حکومت کی پالیسیوں پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔
وزیرِاعظم کے بقول یہ پاکستان میں حکومت تبدیل کرنے کی ‘واضح دھمکی’ تھی۔
وزارت خارجہ نے اس سائفر پر امریکی سفارت خانے کو ’ڈی مارش‘ کیا۔
ایک غیر معمولی اقدام جو کسی بھی ملک میں سفارتی ناراضی کا اظہار ہوتا ہے۔ عمران خان نے اسے ‘رجیم چینج’ کی کھلی کوشش قرار دیا۔
3 اپریل 2022 کو قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پر ووٹنگ سے قبل ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے اسے مسترد کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ یہ ایک غیر ملکی سازش کا حصہ ہے جو آئینِ پاکستان کے آرٹیکل 5 کے خلاف ہے۔ عمران خان نے اسمبلی تحلیل کرنے کی سفارش کی جو صدر نے فوراً منظور کر لی۔
یہ اقدام فوری طور پر عدالت میں چیلنج ہوا، سپریم کورٹ نے رات کو عدالتیں کھول کر آئینی عمل کو بحال کرنے کی راہ ہموار کی۔
سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے 7 اپریل کو فیصلہ سنایا کہ قاسم سوری کی رولنگ غیر آئینی تھی اور عمران خان حکومت کو بحال کر دیا۔ عدالت نے حکم دیا کہ تحریک عدم اعتماد پر ہر صورت ووٹنگ کرائی جائے۔
بالآخر 9 اپریل کی رات، شدید سیاسی کھینچا تانی میں اسد قیصر کےاستعفیٰ اور ایاز صادق کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں تحریکِ عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔ 174 ووٹوں سے عمران خان وزارتِ عظمیٰ سے ہٹا دیے گئے۔
تحریکِ انصاف نے اس تبدیلی کو ‘رجیم چینج آپریشن’ کا نام دیا۔ سابق وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری کے بقول “یہ حکومت گرانے کا نہیں، پاکستان پر قبضہ کرنے کا منصوبہ تھا۔ عمران خان کو اس لیے ہٹایا گیا کیونکہ وہ امریکا کے سامنے جھکنے کو تیار نہ تھے۔”
سابق وزیر اطلاعات فواد چودھری نے ‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “رجیم چینج نہیں ہونی چاہیے تھی اس چینج نے ترقی کرتے پاکستان کو دہائیوں پیچھے دھکیل دیا، پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور اسے اپنے فیصلے خود کرنے ہوں گے۔ پاکستان پر کوئی بھی اپنے فیصلے تھونپ نہیں سکتا۔”
بعد ازاں عمران خان نے عوام سے رابطہ مہم شروع کی جس کا نعرہ “امپورٹڈ حکومت نامنظور” تھا۔ ملک بھر میں جلسے جلوس ہوئے، بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں نے بھی مظاہرے کیے۔
سائفر پر نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ، کابینہ بریفنگ اور بعد ازاں آڈیو لیکس نے معاملے کو مزید گمبھیر بنا دیا۔ ایک مبینہ آڈیو میں عمران خان اور ان کی ٹیم کو یہ کہتے سنا گیا کہ “ہم نے صرف کھیلنا ہے سائفر کے ساتھ، ہم امریکا کا نام نہیں لیں گے، بس اپنی narrative build کرنی ہے۔”
اس سے مخالفین کو موقع ملا کہ وہ اسے ‘سازشی بیانیہ’ قرار دیں جبکہ پی ٹی آئی کا اصرار تھا کہ یہ پاکستان کی خودمختاری پر حملہ تھا۔
پی ٹی آئی کے رجیم چینج کے بیانیے کے بعد پی ٹی آئی رہنماؤں اور کارکنان کی گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ، خواتین کارکنان اور سابق وزراء کو بھی گرفتار کیا گیا۔
پی ٹی آئی کے سینیٹر اعظم سواتی، شہباز گل، فواد چوہدری سمیت درجنوں کارکنان کو بغاوت، سائفر لیکس، اور ‘ریاست مخالف’ تقاریر کے الزامات میں حراست میں لیا گیا۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور صحافتی تنظیموں نے بھی اس پر سخت تحفظات کا اظہار کیا۔
9 مئی 2023 کو عمران خان کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کیا لیکن اس کا فوری ردعمل پورے ملک میں محسوس ہوا۔ پی ٹی آئی کارکنان کی بڑی تعداد سڑکوں پر آ گئی جس سے عدالتیں بند ہو گئیں اور سڑکیں جام ہوگئیں۔
اس کے بعد 9 مئی کو ملک میں پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے، جن میں فوجی تنصیبات کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ حکومت نے ان واقعات کو ‘ریاست دشمنی’ قرار دے کر ہزاروں کارکنان کو گرفتار کیا۔
9 اپریل 2022 سے لے کر آج تک پاکستان ایک مسلسل سیاسی ہنگامہ خیزی، بیانیے کی جنگ، آئینی سوالات اور ریاستی اعتماد کے بحران سے دوچار ہے۔
ایسے میں بہت سے سوالات جنم لیتے ہیں جیسا کہ عمران خان کو واقعی غیر ملکی دباؤ پر ہٹایا گیا؟ یا یہ ایک جمہوری، آئینی تبدیلی تھی جسے سازش کا رنگ دیا گیا؟ کیا ریاستی ادارے واقعی ‘نیوٹرل’ رہے؟
ان سوالات کا ابھی تک پوری طرح جواب نہیں مل سکا لیکن یہ ضرور طے ہے کہ ‘رجیم چینج’ اب ایک سیاسی اصطلاح سے بڑھ کر عوامی شعور کا حصہ بن چکی ہے اور یہ کہانی ابھی ختم نہیں ہوئی۔