واشنگٹن نے تہران پر ایک اور سفارتی حملہ کر دیا، جوہری مذاکرات سے محض 48 گھنٹے قبل امریکا نے ایران کے مزید پانچ اداروں اور ایک اہم شخصیت پر سخت پابندیاں عائد کر دیں۔
امریکی محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ تمام ادارے ایران کے متنازع جوہری پروگرام سے منسلک ہیں۔ بظاہر تو یہ صرف پابندیاں ہیں مگر درپردہ پیغام بہت واضح ہے کہ “یا تو جھک جاؤ، یا نتائج بھگتو۔”
پابندیوں کا یہ اعلان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب امریکا اور ایران کے درمیان جوہری معاہدے کی بحالی کے امکانات روشن ہو رہے تھے۔ لیکن اس نئی چال نے ایک بار پھر حالات کو کشیدگی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے مخصوص جارحانہ انداز میں کہا کہ “ایران کو جوہری ہتھیار رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ اگر ضرورت پڑی تو فوجی طاقت استعمال کریں گے اور اسرائیل ہمارے ساتھ ہوگا۔”
ایران پر دباؤ بڑھانے کی یہ حکمت عملی واشنگٹن کی پرانی پالیسی کا تسلسل ہے مگر سوال یہ ہے کہ آیا مذاکرات اب بھی ممکن ہیں؟ یا پھر خطے میں ایک اور تنازع جنم لینے والا ہے؟