جیسے ہی سندھ حکومت آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاری کے آخری مراحل میں داخل ہوئی تو محکمہ زراعت کی ایک اہم بیٹھک نے سیاسی، ماحولیاتی اور زرعی حلقوں میں اہم فیصلے کیے ہیں۔
ایک طرف بڑھتی ہوئی موسمیاتی تبدیلی تو دوسری طرف پانی کی سنگین قلت، ان دونوں چیلنجز نے زرعی معیشت کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔
وزیر زراعت سردار محمد بخش مہر کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں مستقبل کی زراعت کو موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے محفوظ رکھنے اور کم پانی والی جدید زرعی اسکیموں پر زور دیا گیا۔
اجلاس میں محکمہ زراعت کے اعلیٰ افسران، سیکریٹری زراعت سہیل احمد قریشی، ایڈیشنل سیکریٹری ادریس کھوسو، ڈپٹی سیکریٹری احمد علی شیخ، ڈی جی ندیم شاہ اور دیگر شریک تھے۔
یہ اجلاس ایک نئے زرعی دور کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے، جس میں سردار محمد بخش مہر نے واضع پیغام دیا ہے کہ “موسمیاتی تبدیلی کے تناظر میں پانی کی کمی کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور مستقبل کی زراعت جدید اور کم پانی والی ٹیکنالوجی پر منحصر ہوگی۔”
اسی مقصد کے تحت بجٹ میں ایسی اسکیمیں شامل کی جا رہی ہیں جو زراعت کو کم پانی میں بھی ممکن بنائیں گی۔ 772 ڈرپ ایریگیشن سسٹم، جن سے 12,190 ایکڑ زمین کو فائدہ پہنچے گا جو کہ پہلے ہی کسانوں کو فراہم کیے جا چکے ہیں۔
اس کے علاوہ سندھ حکومت نے شمسی توانائی سے چلنے والے 536 ٹیوب ویلز پر بھی سبسڈی دی ہے تاکہ بجلی کی بڑھتی قیمتوں سے کسانوں کو تحفظ ملے۔
دوسری جانب 24,191 خواتین کو کچن گارڈن کٹس فراہم کی گئی ہیں جو نہ صرف گھریلو ضرورتیں پوری کر رہی ہیں بلکہ انہیں بااختیار بھی بنا رہی ہیں۔
اس اجلاس میں “بینظیر ہاری کارڈ” اسکیم کے تحت کسانوں کی آن لائن رجسٹریشن کو مزید تیز کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اب تک 15,000 ہاری آن لائن جبکہ 16,000 مینوئل طریقے سے رجسٹر ہو چکے ہیں۔
وزیر زراعت کا کہنا تھا کہ “ہم چاہتے ہیں کہ سندھ کا ہر ہاری اس سہولت سے مستفید ہو۔”
اس کے علاوہ زرعی مشینری پر سبسڈی دینے کی تجویز بھی بجٹ میں شامل کی گئی ہے تاکہ کسان جدید آلات سے لیس ہو کر اپنی پیداوار میں اضافہ کر سکیں۔
اس اقدام سے نہ صرف فصل کی لاگت کم ہوگی بلکہ پیداوار بھی دوگنی ہو سکتی ہے۔
سندھ حکومت کی یہ کوشش بظاہر ایک انقلابی قدم ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا کسان ان جدید تقاضوں کے لیے تیار ہیں؟ کیا وہ ان اسکیموں سے پوری طرح مستفید ہو پائیں گے؟