Follw Us on:

مسجد کے حجرے سے کوچنگ سینٹر کے کمرے تک، آنکھ کھلی رکھنی ہوگی

زین اختر
زین اختر

چار سالہ علی کو اب رنگوں سے ڈر لگتا ہے۔ وہ جب بھی اپنی کاپی پر رنگ بھرنے بیٹھتا ہے تو اس کی چھوٹی سی انگلیاں کانپنے لگتی ہیں۔ اس کی ماں، شمیم بی بی، جب اسے گود میں بٹھا کر پیار کرنا چاہتی ہیں تو وہ ہڑبڑا کر پیچھے ہٹ جاتا ہے۔ لاہور کے ایک متوسط علاقے میں رہنے والا علی ان ہزاروں بچوں میں سے ایک ہے جو جنسی استحصال کا شکار ہوئے۔ لیکن علی کے چہرے پر لکھی یہ دردناک کہانی معاشرے کی آنکھوں سے اکثر اوجھل رہتی ہے۔

ہر سال 18 نومبر کو بچوں کے جنسی استحصال کے خاتمے کے لیے عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کا مقصد صرف یہ نہیں کہ ہم ایک دن موم بتیاں جلا کر تصویریں کھینچیں، بلکہ اصل مقصد ان خاموش چیخوں کو آواز دینا ہے جو اکثر دیواروں کے پیچھے، بند کمروں میں دب جاتی ہیں۔

پاکستان میں بچوں کے جنسی استحصال کے کیسز کی تعداد حیران کن ہے۔ NGO ساحل کی رپورٹ کے مطابق صرف 2023 میں 4000 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے، جب کہ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ صرف “آئس برگ کا سرا” ہے۔ زیادہ تر کیسز رپورٹ ہی نہیں ہوتے۔ وجہ؟ خوف، شرمندگی، اور سب سے بڑھ کر، “کیا کہیں گے لوگ؟”

پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے کراچی کے سوشل ورکر اور بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے عمران شہزاد بتاتے ہیں، “اکثر والدین کو اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ان کا بچہ کسی اذیت سے گزر رہا ہے۔ بچہ جب خاموش ہو جائے، باتیں کرنے سے گریز کرے، یا اچانک رویے میں تبدیلی آئے، تو یہ علامات ہوتی ہیں جنہیں ہمیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔”

لیکن کیا صرف آگاہی کافی ہے؟ ہم بطور معاشرہ کب یہ سمجھیں گے کہ بچے صرف جسمانی طور پر نہیں، بلکہ جذباتی اور ذہنی طور پر بھی متاثر ہوتے ہیں؟

پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے پشاور کی رہائشی طیبہ نور جو خود بچپن میں ایسے ہی ایک واقعے سے گزری ہیں، کہتی ہیں، “مجھے کئی سال لگے یہ سمجھنے میں کہ میرے ساتھ کیا ہوا تھا۔ اس نے میری شخصیت بدل دی۔ میں اعتماد کھو بیٹھی۔ لیکن سب سے تکلیف دہ بات یہ تھی کہ جب میں نے اپنی ماں کو بتایا، تو انہوں نے کہا خاموش رہو، خاندان کی عزت کا سوال ہے۔”

یہی وہ رویہ ہے جو مجرموں کو مزید طاقت دیتا ہے۔ اگر ہم بچوں کی بات سننے کو تیار نہیں، تو وہ کس پر بھروسہ کریں گے؟

پاکستان میٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے بچوں کے حقوق کے ماہر اور معروف وکیل آصف محمود کے مطابق، پاکستان میں موجود قوانین جیسے کہ “زینب الرٹ بل 2020” اور “تحفظِ اطفال ایکٹ 2016” ایک اچھی شروعات ضرور ہیں، مگر ان پر عملدرآمد نہ ہونے کے برابر ہے۔ وہ کہتے ہیں، “ہم نے قانون تو بنا لیا، مگر زمین پر پولیس کو نہ ٹریننگ ہے، نہ وسائل۔ کئی دفعہ تو ایف آئی آر درج کروانا بھی پہاڑ چڑھنے جیسا مشکل ہوتا ہے۔”

میڈیا، اسکول، والدین اور حکومت؛ سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ بچوں کے لیے ایک محفوظ ماحول مہیا کیا جائے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں بچوں سے متعلق گفتگو کو شرم، حیا اور غیرت کے پردے میں چھپا دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بچے بول نہیں پاتے، اور مجرم آزاد گھومتے ہیں۔

پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے لاہور کی ایک پرائمری اسکول ٹیچر مہرین فاطمہ کہتی ہیں، “ہم نے اب اپنے اسکول میں ’سیفٹی ایجوکیشن‘ کے نام سے پاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے ایکپاکستان میٹرز سے بات کرتے ہوئے چھوٹا پروگرام شروع کیا ہے۔ بچوں کو ان کے جسم کی حدود، ’گڈ ٹچ‘ اور ’بیڈ ٹچ‘ کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ کچھ والدین اسے پسند نہیں کرتے، مگر وقت آ گیا ہے کہ ہم بچوں کو ان کے حقوق سکھائیں۔”

مسئلہ صرف دیہات یا کم پڑھے لکھے علاقوں تک محدود نہیں۔ شہروں میں، بڑے بڑے گھروں اور اسکولوں میں بھی یہ درندے موجود ہیں۔ اور زیادہ تر کیسز میں جاننے والا، قریبی رشتہ دار یا پڑوسی ملوث ہوتا ہے۔

یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہمارے عدالتی نظام میں بچوں کو انصاف ملتا ہے؟ بدقسمتی سے نہیں۔ اکثر مقدمات سالوں تک چلتے ہیں، اور جب تک فیصلہ آتا ہے، متاثرہ بچہ عمر کے اُس حصے میں پہنچ چکا ہوتا ہے جہاں وہ ماضی کو پیچھے چھوڑنے کی کوشش کر رہا ہوتا ہے، لیکن عدالتی کاروائی اسے بار بار اس واقعے کی یاد دلاتی ہے۔

پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے صحافی اور بچوں پر تحقیق کرنے والے مبشر شاہ کہتے ہیں، “ہمیں ایک ایسا نظام بنانا ہو گا جو بچے کی حفاظت کو مقدم سمجھے۔ اسکولوں میں کونسلنگ لازمی ہونی چاہیے، اور میڈیا پر بچوں کے استحصال کے موضوعات پر کھل کر بات ہونی چاہیے۔ جب تک ہم خاموش رہیں گے، تب تک علی جیسے ہزاروں بچے خاموشی سے اپنی معصومیت کھوتے رہیں گے۔”

یہ عالمی دن صرف ایک یاد دہانی ہے، ایک کال ہے ہم سب کے ضمیر کے لیے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے بچے محفوظ ہوں، تو ہمیں ان کی آواز بننا ہو گا۔ گھر کے دروازے کے اندر، اسکول کی دیواروں کے بیچ، مسجد کے حجرے سے لے کر کوچنگ سینٹر کے کمرے تک، ہر جگہ ہمیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنی ہوں گی۔

علی اب بھی رنگوں سے ڈرتا ہے، مگر اس کی ماں نے اب ہمت پکڑ لی ہے۔ وہ اب ہر میٹنگ میں، ہر تقریب میں، یہ بات ضرور کہتی ہیں، “ہم نے پہلے دیر کر دی، آپ نہ کریں۔ اپنے بچوں سے بات کریں۔ ان کی خاموشی کو سمجھیں۔”

شاید یہی پہلا قدم ہے ایک محفوظ مستقبل کی طرف۔ جہاں بچپن صرف گڑیا، گاڑی اور کہانیوں کی دنیا تک محدود ہو، نہ کہ ایسی یادوں سے بھرا ہو جنہیں کوئی بھی یاد نہیں رکھنا چاہتا۔

اگر ہم نے آج ان بچوں کے لیے آواز نہ اٹھائی، تو کل کو ہمیں خود اپنی خاموشی کا حساب دینا پڑے گا۔

زین اختر

زین اختر

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس