Follw Us on:

 ہرڈ اور میکڈونلڈ جزائر: جہاں انسان ناپید، مگر امریکی ٹیکس پہنچ گئے

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
ہرڈ اور میکڈونلڈ

دنیا کے نقشے پر ایک مقام ایسا بھی ہے جہاں نہ کوئی بازار ہے نہ بندرگاہ اور نہ ہی کوئی رہائشی آبادی، مگر امریکی تجارتی پابندیاں وہاں بھی پہنچ گئیں۔

آسٹریلیا کے جنوب مغرب میں 4,000 کلومیٹر دور برف سے ڈھکے، آتش فشانی سرزمین پر مشتمل ‘ہیئرڈ اور میکڈونلڈ جزائر’ بھی حال ہی میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے لگائے گئے تجارتی محصولات (ٹیرِفز) کی زد آگیا۔

جب یہ خبر سامنے آئی کہ ان غیرآباد، سنسان اور سرد ترین جزائر کو بھی امریکی محصولات کا سامنا ہے تو سوشل میڈیا پر مزاحیہ میمز کی بھرمار ہو گئی۔ 

خاص طور پر جزائر کے سب سے مشہور مکین ‘کنگ پینگوئنز’ کے تصویری خاکے دنیا بھر میں وائرل ہو گئے۔

مگر سائنسدان کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان برفانی جزیروں پر صرف پینگوئنز نہیں بستے بلکہ یہاں ایک ایسی نایاب حیاتیاتی دنیا چھپی ہوئی ہے جو اپنی مثال آپ ہے۔

یہ جزائر کسی فلمی مناظر کا حصہ لگتے ہیں، چوٹیوں پر برف، نیچے شور مچاتی لہریں، برفانی تودے اور ہر طرف خاموشی میں چیختی ہوئی ہوا۔

محقیقہ ڈاکٹر جسٹین شا جو 2003 میں یہاں دو ماہ تک قیام کر چکی ہیں، وہ بتاتی ہیں کہ “یہ زمین کا دنیا کا وہ کونہ ہے جہاں انسانی نشان نہیں ملتے، یہاں نہ کوئی بندرگاہ ہے نہ ہوائی پٹی۔ ہم وہاں ربڑ کی کشتیوں میں اترے۔ یہ تجربہ کسی سائنس فکشن فلم سے کم نہ تھا۔”

جزائر پر موجود ایک پرانا تحقیقی مرکز جو 1955 میں چھوڑ دیا گیا تھا وہ آج صرف ٹوٹی پھوٹی لکڑی اور زنگ آلود دھاتوں کی صورت میں موجود ہے جو ہر پل یہاں کے کٹھور موسم کی مار سہہ رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: انڈیا میں شدید بارشیں: مختلف ریاستوں میں 100 افراد ہلاک ہوگئے

میرین ایکولوجسٹ اینڈریو کانسٹیبل 2004 میں 40 دنوں کی ایک سائنسی مہم کی قیادت کر چکے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ “نو دن تک ہمارا جہاز سمندر کے طوفانوں میں ہچکولے کھاتا رہا۔ دس میٹر اونچی لہریں تھیں اور ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے۔”

مگر جب ساحل تک رسائی ملی تو جو کچھ اُنہوں نے دیکھا وہ حیرت انگیز تھا۔

انہوں نے بتایا کہ “ہزاروں پینگوئنز، ہاتھی نما سمندری مہر، رنگ برنگے پرندے اور پگھلتے گلیشیئرز کی گونج تھی۔”

یہ علاقہ ماہرین کے لیے قدرت کی آخری “لیب” جیسا ہے جہاں نہ انسانی مداخلت ہے، نہ آلودگی، صرف فطرت اپنے اصل روپ میں ہے۔

ماہرین حیران ہیں کہ آخر ان بےآباد جزیروں پر ٹرمپ کی تجارتی پالیسی کا سایہ کیوں پڑا؟

اس کی ایک ممکنہ وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ کچھ ممالک ان دور افتادہ علاقوں کو بطور “ری ایکسپورٹ زون” استعمال کرنا چاہتے ہوں تاکہ امریکی محصولات سے بچا جا سکے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہاں ایسی کوئی تجارتی سرگرمی ممکن ہی نہیں۔

یہ زمین کا وہ حصہ ہے جہاں “دنیا کو جوں کا توں” دیکھنے کا موقع ملتا ہے، جہاں ہر قدم فطرت کے راز کھولتا ہے اور ہر منظر حیران کر دیتا ہے۔

مزید پڑھیں: سیاحت کے لیے آئے ہسپانوی خاندان کا ہیلی کاپٹر نیویارک میں گر کر تباہ، چھ افراد ہلاک

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس