Follw Us on:

جلیانوالہ 1919: قتل عام یا بیداری کا آغاز؟

مادھو لعل
مادھو لعل

13 اپریل 1919, جلیانوالہ باغ کا وہ دن جب بندوقیں بولیں اور عوام خاموش ہو گئے۔ یہ صرف ایک قتل عام نہ تھا، یہ تاریخ کا وہ لمحہ تھا جہاں خوف اور بیداری ایک ساتھ پیدا ہوئے۔ سو سے زائد برس گزرنے کے باوجود آج بھی  سوال بھی وہی ہے کہ کیا یہ صرف ماضی کی داستان ہے یا آج کا آئینہ؟

آج جب سچ کہنے پر قدغن لگی ہے، جب لفظوں پر پہرہ بیٹھا ہے، جب سوشل میڈیا کی آزادی بھی قانون کی زنجیروں میں جکڑی گئی ہے ، جب کسی کی بات کو آگے پھیلانے پر اٹھایا گیا ہے تو یہ سوال پھرایک بار اٹھا ہےکہ کیا ہماری خاموشی ایک نئی جلیانوالہ لکھنے جا رہی ہے؟

یہ بات ہے 13 اپریل 1919 کی جب امرتسرمیں  بیساکھی کا دن تھا، جسے پنجاب کے لوگ خوشی سے منارہے تھے۔ اسی دن شام کے وقت ایک ایسا سانحہ رونما ہوا جس نے پورے برصغیر کو لرزا کر رکھ دیا۔ جلیانوالہ باغ کے اندر ہونے والا وہ قتل عام نہ صرف انسانیت پر ایک بدنما داغ بن کر ابھرا، بلکہ آزادی کی تحریک کو بھی ایک نیا رخ دے گیا۔

اس دن ہزاروں لوگ جلیانوالہ باغ میں جمع ہوئے تھے، کچھ اپنے مذہبی تہوار کے لیے اور کچھ رولیٹ ایکٹ کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے۔ رولیٹ ایکٹ کو فروری 1919ء میں برطانوی راج نے نافذ کیا تھا، یہ ایک ایسا قانون تھا جو بغیر مقدمے کسی کو بھی قید کرنے کا اختیار دیتا تھا اور آج بھی اس سے ملتا جلتا ایک بنایا گیا ہے۔  اس ایکٹ کے خلاف ملک بھر میں غصہ بھڑک اٹھا تھا اور امرتسر میں بھی جذبات قابو سے باہر ہو رہے تھے۔

مارچ کے آخر میں ڈاکٹر سیف الدین کچلو اور ڈاکٹر ستیا پال جیسے قومی رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا۔ ان کی گرفتاری کے بعد شہر میں ماحول مزید کشیدہ ہو گیا۔ انگریزوں نے مارشل لا نافذ کر دیا۔ سڑکوں پر فوجی گشت کرنے لگے اور ہر قسم کے جلسے جلوس پر پابندی لگا دی گئی۔

مگر 13 اپریل کو ہزاروں لوگ ایک مرتبہ پھر جلیانوالہ باغ میں جمع ہو گئے۔ باغ کی دیواروں کے اندر عوامی جوش و خروش عروج پر تھا، لیکن کسی کو معلوم نہ تھا کہ موت ان کے سروں پر منڈلا رہی ہے۔

اسی وقت بریگیڈیئر جنرل ریجینالڈ ایچ ڈائر کو اطلاع ملی کہ جلیانوالہ باغ میں جلسہ ہو رہا ہے۔ وہ اپنے سپاہیوں کو لے کر موقع پر پہنچا۔ داخلی راستے پر توپیں نصب کر دی گئیں۔ پھربغیر کوئی وارننگ دیے، جنرل ڈائر نے حکم دیا کہ فائر کرواور فائرنگ شروع ہو گئی۔ بندوقیں آگ اگلنے لگیں۔ چیخ و پکار، بھاگتے قدم اور دیواروں پر چڑھنے کی کوشش میں کئی افراد گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ سپاہیوں نے تقریباً 10 منٹ تک بلا توقف فائرنگ کی، جب تک کہ گولیاں ختم نہ ہو گئیں۔

‘پاکستان میٹرز’ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ایڈووکیٹ محسن  رضا کا کہنا تھا کہ جلیانوالہ باغ کا سانحہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اس وقت کے برطانوی نمائندے انسانی ہمدردی اور اخلاقی اقدار سے مکمل طور پر عاری ہو چکے تھے۔ جنرل ڈائر نے نہتے، پُرامن مظاہرین پر گولیاں چلوا کر یہ دکھایا کہ ان کے لیے مقامی آبادی کی جان کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ بچوں، عورتوں، بزرگوں کو بھی نہ بخشنا ان کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

یہ تاریخ کا وہ سیاح دن تھا، جس میں انسانیت کا سرِعام قتل کیا گیا، جنرل ڈائر نے رپورٹ میں لکھا کہ میرا مقصد صرف ہجوم کو منتشر کرنا نہیں تھا، بلکہ سبق سکھانا تھا۔اس رپورٹ نے اس سوال کو جنم دیاتھا کہ کیا برطانوی حکومت کے نمائندے کسی انسانی ہمدردی کے جذبے سے عاری ہو چکے تھے؟

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس دن  379 افراد شہید اور 1200 سے زائد زخمی ہوئےتھے،  مگر عینی شاہدین اور مقامی ذرائع ان اعداد و شمار کو کم از کم 1000 سے زیادہ بتاتے ہیں۔

ایڈووکیٹ محسن رضا کے مطابق ایسے واقعات سامراجی نظام کی فطرت کو پوری طرح بے نقاب کرتے ہیں۔ جب کوئی قوم دوسری قوم پر طاقت کے ذریعے حکومت کرتی ہے، تو ظلم و ستم اور جبر لازمی امر بن جاتا ہے۔ جلیانوالہ باغ جیسے واقعات سامراجی طاقتوں کی اصل سوچ کو ظاہر کرتے ہیں کہ وہ طاقت کی بنیاد پر عوام کو دبانے اور خوف میں رکھنے کو جائز سمجھتے ہیں۔

جلیانوالہ باغ کے اندر ایک کنواں تھا، جس میں کئی لوگوں نے جان بچانے کے لیے چھلانگ لگا دی، مگر وہی کنواں ان کا قبرستان بنا تھا۔اس طرح کے واقعات تاریخ میں  سامراجی قوتوں کی بے رحمی کو ظاہر کرتے ہیں۔

اس سانحے کے بعدپورے ہندوستان  میں کہرام مچ گیاتھا ۔ مہاتما گاندھی نے تحریکِ عدم تعاون کا آغاز کر دیا۔ رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنی ’سر‘ کی اعزازی سند واپس کر دی۔ انگریز حکومت نے دباؤ میں آ کر ’ہنٹر کمیٹی‘ قائم کی، جس نے رسمی تحقیقات کیں، لیکن کسی کو انصاف نہ ملا۔

محسن رضا نے کہا ہے کہ ہنٹر کمیٹی ایک علامتی اور نمائشی قدم تھا، جس کا مقصد عوامی غصے کو وقتی طور پر کم کرنا تھا۔ کمیٹی میں مقامی نمائندگی ناکافی تھی اور جنرل ڈائر کو نہ صرف بری کیا گیا بلکہ بعد میں کچھ حلقوں میں اس کو “ہیرو” قرار دے کر انعامات بھی دیے گئے، جو برطانوی حکومت کی منافقانہ پالیسیوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

اس سانحے نے قوم میں بیداری کا آغاز کیا، ہندوستانیوں کی سوچ بدلنے لگی۔ لوگ سمجھ چکے تھے کہ صرف پٹیشنز یا قراردادوں سے آزادی نہیں ملے گی بلکہ ایک جامع اور متحدہ مزاحمت کی ضرورت ہے۔

ایڈووکیٹ محسن رضا نے بتایا ہے کہ جلیانوالہ باغ کا قتل عام ایک فیصلہ کن موڑ ثابت ہوا۔ اس کے بعد مہاتما گاندھی سمیت کئی رہنماؤں نے برطانوی راج کی اصلاح کی بجائے مکمل آزادی کا مطالبہ شروع کیا۔ اس واقعے نے عوام کو یہ باور کرا دیا کہ سامراج کے ساتھ اصلاح کی امید رکھنا ایک فریب ہےاور آزادی ہی واحد راستہ ہے۔

آج بھی جب اس سانحے کو یاد کیا جاتا ہے تو سب سے زیادہ تکلیف اس بات پر ہوتی ہے کہ  جنرل ڈائر کو سزا نہیں دی گئی تھی بلکہ لندن واپسی پر کچھ حلقوں نے اسے “ہیرو” قرار دیا۔

جنرل ڈائر کو ہیرو کہنے پر محسن رضا کا کہنا تھا کہ  جنرل ڈائر جیسے شخص کو ہیرو قرار دینا مغرب کے انسانی حقوق کے دعووں پر سنگین سوالات کھڑے کرتا ہے۔ مغرب جو خود کو انسانی حقوق اور انصاف کا علمبردار کہتا ہے، وہ جب ایسے کرداروں کو سراہتا ہے، تو اس کی اقدار کا دوہرا معیار سامنے آتا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ مغربی طاقتیں اپنے مفاد میں ظلم کو بھی جائز سمجھتی ہیں۔

وقت گزرتا گیا، لیکن جلیانوالہ باغ کی خاموش دیواریں آج بھی گویا چیخ چیخ کر ظلم کی کہانی سنا رہی ہیں۔ وہاں کے گولیوں کے نشانات اب بھی باقی ہیں۔

دوسری جانب پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبہ صحافت کے طالب علم محمد سراج حمید کا کہنا تھا کہ  بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایسے سانحے کے بعد یادگاریں قائم کردی جاتی ہیں، مگرصرف یادگاریں قائم کر دینا کافی نہیں۔ ہمیں ان سے سبق سیکھنا چاہیے کہ ظلم، ناانصافی اور آمریت کے خلاف ہمیشہ آواز بلند کرنی چاہیے تاکہ تاریخ خود کو نہ دہرائے۔

اس واقعے نے نہ صرف ہندو مسلم اتحاد کو مضبوط کیا بلکہ سکھ برادری بھی آزادی کے کارواں میں بھرپور انداز میں شامل ہو گئی۔

سراج حمید نے کہا ہےکہ جہاں جلیانوالہ باغ کے قتل عام نے غیر انسانی رویے کو دنیا کے سامنے اجاگر کیا وہیں برصغیر میں فرقہ واریت سے بالاتر ایک متحدہ قوم کی بنیاد بھی رکھی۔ ہندو، مسلمان، سکھ سب نے اس ظلم کے خلاف یکجہتی کا مظاہرہ کیا۔

آج جب نوجوان آزادی کو ایک معمولی حق سمجھتے ہیں، تو انہیں یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ یہ آزادی کیسے ممکن ہوئی۔

جامعہ پنجاب کے طالب علم نےکہا ہے کہ بنتا تو یہ تھا کہ ایسے واقعات کو آنے والی نسلوں کو پڑھائے جاتے اور انھیں بزرگوں کی عظیم داستانوں سے روشناس کرایا جاتا، مگر بدقسمتی سے ہمارا تعلیمی نظام ایسے سانحات کو محض چند سطروں یا تاریخ کی کتابوں تک محدود رکھتا ہے۔ اس میں جذبات، اثرات اور سیکھنے کا پہلو اکثر نظرانداز ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس واقعے کی مذمت کی گئی۔ کئی مغربی دانشوروں نے اسے ’نسل کشی‘ سے تعبیر کیا۔

سراج حمید نے بتایا کہ  اگر آج ایسا واقعہ پیش آئے تو ممکن ہے عالمی ضمیر کچھ ردعمل دے، لیکن عالمی طاقتوں کے مفادات اور سیاسی مصلحتیں اکثر انسانی حقوق سے بالاتر ہو جاتی ہیں، جیسا کہ ہم حالیہ عالمی تنازعات میں دیکھتے ہیں اور اس کی عمدہ مثال اسرائیل کی جانب سے غزہ پر کی جانے والی نسل کشی کی جنگ ہے، جس پر انسانی حقوق کے ٹھیکداروں سے لے کر پورا مغرب خاموش ہے۔

جلیانوالہ باغ کی کہانی صرف ماضی کا حوالہ نہیں، بلکہ ایک آئینہ ہے جو ہمیں بتاتا ہے کہ طاقت کے نشے میں ڈوبی حکومتیں کیسے انسانیت کو روند ڈالتی ہیں۔ آج بھی ہم نے یہ سبق مکمل طور پر نہیں سیکھا۔ ظلم کے خلاف خاموشی اب بھی ایک عام رویہ ہے۔ جب تک ہر فرد خود کو ذمہ دار نہیں سمجھے گا، تبدیلی ممکن نہیں۔

مادھو لعل

مادھو لعل

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس