حکومت کی جانب سے سرکاری نوکریوں کے خاتمے اور محکموں کی آؤٹ سورسنگ کی پالیسی نے محکمہ صحت کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، جس کے باعث مفت اور معیاری علاج فراہم کرنے والے اسپتالوں کی کارکردگی پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔
ینگ ڈاکٹرز احتجاج کررہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ صفائی، سیکیورٹی اور پارکنگ جیسے اہم شعبے نجی ٹھیکیداروں کے حوالے کر دیے گئے ہیں، جس سے نہ صرف ہسپتالوں کا ماحول متاثر ہو رہا ہے بلکہ مریضوں اور ان کے لواحقین کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
حکومت کی جانب سے بارہا صفائی کی ناقص صورتحال پر تنقید کی جاتی ہے، لیکن یہ نظرانداز کر دیا جاتا ہے کہ صفائی کی خدمات اب اسپتال انتظامیہ کے بجائے ٹھیکیداروں کے ماتحت ہیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایم ایس یا دیگر سرکاری افسران ان پر کوئی اختیار نہیں رکھتے۔
سیکیورٹی کی صورتحال بھی تشویشناک ہے۔ کم تنخواہ پر بھرتی کیے جانے والے گارڈز نہ صرف غیر تربیت یافتہ ہیں بلکہ خود بھی سیکیورٹی کے محتاج دکھائی دیتے ہیں۔ ایک سیکیورٹی کمپنی حکومت سے فی اہلکار 37 ہزار روپے وصول کرتی ہے لیکن اپنے ورکرز کو بمشکل 20 سے 22 ہزار روپے ماہانہ ادا کرتی ہے۔ نہ کوئی چیک اینڈ بیلنس ہے اور نہ ہی کوئی مانیٹرنگ کا نظام۔
حکام کا کہنا ہے کہ حکومت بجٹ کی کمی کو بنیاد بنا کر نوکریاں آؤٹ سورس کر رہی ہے، تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ جب حکومتی سینیٹرز لاکھوں روپے ماہانہ لے رہے ہوں تو عام عوام کے لیے صحت جیسے بنیادی حق کو نجی مفادات کے حوالے کرنا قابلِ تشویش ہے۔