پاکستان نے حال ہی میں ایک بار پھر عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے ساتھ نیا معاہدہ کر لیا ہے۔ یہ خبر ملکی اور عالمی میڈیا کی شہ سرخیوں میں جگہ پا چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ معاہدہ پاکستان کی معیشت کو سہارا دے گا یا ایک نئے اقتصادی بحران کی طرف دھکیل دے گا؟ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے تعلقات کی تاریخ خاصی پرانی اور پیچیدہ ہے، جس میں ہر نئے معاہدے کے ساتھ امید اور مایوسی کا ایک نیا چکر شروع ہوتا ہے۔
پاکستان نے 1958 میں پہلی مرتبہ آئی ایم ایف سے قرض لیا تھا، اور تب سے اب تک ملک تقریباً 23 بار اس ادارے سے قرض لے چکا ہے۔ ہر بار معاہدے کے پیچھے یہی دلیل دی گئی کہ معیشت کو سنبھالا دینا ہے، مگر نتائج زیادہ تر متنازع اور عوام کے لیے تکلیف دہ نکلے۔
اگر حالیہ صورتحال پر نظر ڈالیں تو پاکستان کو شدید مالی دباؤ کا سامنا ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر گھٹ کر 8 ارب ڈالر سے نیچے آ چکے تھے، مہنگائی کی شرح 25 فیصد سے تجاوز کر گئی، اور روپے کی قدر مسلسل گر رہی تھی۔ ان حالات میں حکومت کے پاس بین الاقوامی مالی امداد کے بغیر کوئی اور راستہ نہیں بچا تھا۔
آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والا نیا معاہدہ تقریباً 3 ارب ڈالر کے قرض پر مشتمل ہے، جس میں سے فوری طور پر 1.2 ارب ڈالر جاری کیے جائیں گے۔ معاہدے کی شرائط میں توانائی پر دی جانے والی سبسڈیز کا خاتمہ، ٹیکس نیٹ میں توسیع، بجلی اور گیس کے نرخوں میں اضافہ، اور روپے کی قدر کو مارکیٹ بیسڈ بنانے جیسے سخت اقدامات شامل ہیں۔
کراچی کے صنعتی علاقے کورنگی میں ایک چھوٹی فیکٹری میں کام کرنے والے 39 سالہ سلیم احمد کا کہنا ہے، “پچھلے سال جب بجلی کے بل میں 3 گنا اضافہ ہوا تو ہمارے گھر کا بجٹ مکمل طور پر بگڑ گیا۔ اب دوبارہ وہی ہو رہا ہے۔ مہنگائی کے ساتھ جینا مشکل ہو چکا ہے۔ ہم نے تو ووٹ اس لیے دیا تھا کہ ریلیف ملے گا، لیکن یہاں تو اور بھی بوجھ بڑھ رہا ہے۔”
یہ رائے صرف سلیم تک محدود نہیں۔ ملک کے متوسط اور نچلے طبقے کے لوگ اس معاہدے کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کے خیال میں یہ صرف اشرافیہ کو فائدہ پہنچانے کا ایک نیا حربہ ہے، جس کا بوجھ ایک بار پھر عام آدمی پر ہی پڑے گا۔
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے ماہر معیشت ڈاکٹر عدنان رؤف اس معاہدے کو قدرے مثبت انداز میں دیکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے، “یہ بات درست ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط سخت ہوتی ہیں، لیکن یہ بھی دیکھنا چاہیے کہ ملکی معیشت کس نہج پر پہنچ چکی تھی۔ اگر فوری طور پر فنڈنگ نہ ملتی تو دیوالیہ پن کا خدشہ تھا۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا حکومت ان اصلاحات پر مستقل مزاجی سے عمل کرے گی یا نہیں۔”
ڈاکٹر عدنان مزید کہتے ہیں کہ پاکستان کی اصل ضرورت وقتی ریلیف نہیں بلکہ پائیدار اصلاحات ہیں۔ “ہم نے بار بار غلطیوں کو دہرایا ہے۔ پچھلے معاہدوں کے بعد بھی یہی کہا گیا کہ اب ہم خود کفالت کی طرف جائیں گے، مگر نتیجہ وہی نکلا۔ اگر اس بار بھی صرف قرض لیا گیا اور اصلاحات نہ کی گئیں تو یہ معاہدہ بھی صرف وقتی سہارا ثابت ہو گا۔”
ادھر لاہور سے تعلق رکھنے والی 28 سالہ کاروباری خاتون حرا سلیم کہتی ہیں، “میرا چھوٹا سا آن لائن بزنس ہے، جو میں نے کووڈ کے دوران شروع کیا تھا۔ درآمدی اشیاء پر ٹیکس، ڈالر کی بڑھتی ہوئی قیمت، اور فریٹ چارجز نے ہمارے منافع کو ختم کر دیا ہے۔ اگر حکومت واقعی معیشت کو بہتر بنانا چاہتی ہے تو اسے چھوٹے کاروباروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنا ہوں گی۔ ورنہ یہ معاہدہ صرف بڑے سرمایہ داروں کو فائدہ دے گا۔”
پاکستانی عوام کی یہ شکایات بے بنیاد بھی نہیں۔ ماضی میں جب بھی آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ہوا، اس کے نتائج عوام تک مہنگائی، بیروزگاری اور مالی دباؤ کی صورت میں پہنچے۔ 2019 کے معاہدے کے بعد ہی پاکستان میں ڈالر کی قیمت 140 سے بڑھ کر 170 روپے تک جا پہنچی تھی، اور مہنگائی کی شرح 10 فیصد سے بڑھ کر 14 فیصد تک چلی گئی تھی۔ اب جبکہ نئے معاہدے کے تحت مزید مالیاتی اقدامات کیے جا رہے ہیں، عوامی مشکلات میں اضافہ یقینی دکھائی دیتا ہے۔
تاہم کچھ ماہرین کا یہ بھی ماننا ہے کہ اگر معاہدے پر درست طریقے سے عمل کیا جائے اور اصلاحات کو سیاسی فائدے کے بجائے ملک کے مستقبل کے لیے نافذ کیا جائے تو یہ معاہدہ ایک نئے آغاز کا دروازہ کھول سکتا ہے۔
پاکستان میں معاشی چیلنجز صرف مالیاتی نوعیت کے نہیں بلکہ گورننس، ادارہ جاتی کمزوریوں، اور بدعنوانی جیسے مسائل بھی معیشت کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ صرف قرضے لے کر یا وقتی اقدامات سے مسئلے حل نہیں ہو سکتے۔
اس وقت پاکستان کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ سیاسی استحکام اور پالیسیوں کا تسلسل ہے۔ جب تک ہر نئی حکومت پرانی پالیسیوں کو بدلنے کی روایت ترک نہیں کرتی، تب تک کوئی بھی معاہدہ، چاہے وہ آئی ایم ایف کے ساتھ ہو یا کسی اور ادارے سے، دیرپا نتائج نہیں دے سکتا۔
اب یہ دیکھنا ہے کہ موجودہ حکومت اس معاہدے کو کس طرح سنبھالتی ہے۔ کیا یہ صرف ایک اور قرض ہوگا جو آئندہ حکومت کے لیے درد سر بنے گا، یا یہ واقعی ایک ایسے سفر کا آغاز ہو گا جو پاکستان کو خود انحصاری کی طرف لے جائے گا؟
عوام کی نظریں حکومت پر جمی ہیں، اور امید ہے کہ اس بار یہ معاہدہ ایک مثبت تبدیلی کا باعث بنے، نہ کہ ایک اور معاشی بحران کی تمہید۔ کیونکہ اگر ماضی کی غلطیوں کو نہ روکا گیا، تو آئندہ نسلیں بھی انہی قرضوں اور شرائط کی زنجیروں میں جکڑی رہیں گی۔