پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقوں میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور بغیر قانونی دستاویزات کے افغان پناہ گزینوں کی واپسی کے تناظر میں، دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان سفارتی برف پگھلنے کے آثار سامنے آئے ہیں۔
وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار نے مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ابتدائی ملاقاتیں جاری ہیں، امید ہے کہ چند دنوں میں ایک روزہ دورے پر کابل جاؤں گا تاکہ ان چند سالوں سے جاری جمود کو توڑا جا سکے۔
اسی دوران ایک اہم پیش رفت میں، ایک اعلیٰ سطحی پاکستانی وفد کابل پہنچ چکا ہے جبکہ افغان طالبان حکومت کی ایک سینئر ٹیم بھی اسلام آباد میں موجود ہے۔
پاکستان کے افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی محمد صادق خان نے کابل میں افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی سے مشترکہ رابطہ کمیٹی (جے سی سی) کے فریم ورک کے تحت ملاقات کی۔ دونوں فریقین نے موجودہ صورتحال، دو طرفہ تعلقات میں تناؤ اور افغان پناہ گزینوں کی ملک بدری سمیت مختلف امور پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔
افغان وزیر خارجہ نے ان اخراجات پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے تعمیری سفارت کاری کی ضرورت پر زور دیا۔ افغان حکومت کے ایک بیان کے مطابق دونوں ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنے مسائل باہمی اعتماد کے ماحول میں بات چیت کے ذریعے حل کریں اور ایسے کسی بھی اقدام یا بیان سے گریز کریں جو عوامی جذبات کو بھڑکانے کا سبب بنے۔
اسی ضمن میں محمد صادق خان نےسوشل میڈیا کے پلیٹ فارم ایکس پر لکھا کہ 15 ماہ کے وقفے کے بعد کابل میں مشترکہ رابطہ کمیٹی (جے سی سی) کا ساتواں اجلاس منعقد ہوا ،یہ ایک اہم پلیٹ فارم ہے جو حساس اور اسٹریٹجک معاملات پر بات چیت کے لیے ضروری ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ پاکستانی وفد نے امیر خان متقی کے ساتھ ایک تعمیری اور مستقبل کی جانب گامزن ملاقات کی، جس میں دو طرفہ اور علاقائی امور پر وسیع پیمانے پر بات چیت ہوئی، جو باہمی تعاون اور مشترکہ ترقی کے عزم کی عکاسی کرتی ہے۔
صادق خان نے افغان فریق کو بتایا کہ پاکستان کے نائب وزیر اعظم اور وزیر خارجہ محمد اسحاق ڈار آئندہ دنوں میں کابل کا دورہ کریں گے، جو اس سفارتی پیش رفت کو مزید آگے بڑھانے کی کوشش ہے۔