ورلڈ سرکس ڈے ہر سال اپریل کے تیسرے ہفتے کو منایا جاتا ہے۔ اس بار یہ دن آج 19 اپریل کو منایا جا رہا ہے۔ یہ ایک ایسا دن ہے جو نہ صرف ایک فن کی یاد دلاتا ہے، بلکہ ان بے آواز ہنر مندوں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہے جنہوں نے دوسروں کو خوش کرنے کے لیے اپنی زندگیاں تماشا بنادیں۔
سرکس کی تاریخ ہزاروں سالوں پر محیط ہے۔ قدیم روم کے سرکس میکسمس سے لے کر چین کے سلطنتی درباروں میں دکھائے جانے والے کرتب، اور یورپ کے بادشاہی میلوں تک… یہ فن ہر دور میں لوگوں کو حیرت زدہ کرتا آیا ہے۔
لیکن جس سرکس کو آج ہم جانتے ہیں، وہ اٹھارویں صدی کے آخر میں برطانیہ سے ابھرا۔ فلپ ایسٹلے نامی گھڑسوار نے ایک دائرے میں گھوڑے دوڑاتے ہوئے کرتب دکھانے شروع کیے۔ اسی دائرے کو آج بھی ‘سرکس رِنگ’ کہا جاتا ہے۔
رفتہ رفتہ یہ فن پوری دنیا میں پھیل گیا اور بیسویں صدی تک سرکس ایک عالمی تفریح بن چکا تھا۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا سرکس صرف ایک تماشا تھا؟ یا ایک آرٹ؟ کیا وہ خیمے صرف کھیل کا میدان تھے؟ یا روح کی گہرائی سے جڑے رنگ؟
پاکستان میں سرکس کی اپنی ایک الگ دنیا ہوا کرتی تھی۔ 1960، 70 اور 80 کی دہائی میں ‘رنگیلا سرکس’، ‘شمعو سرکس’، ‘لکی ایرانی سرکس’ اور ‘عالمی برادرز سرکس’ جیسے نام ہر چھوٹے بڑے شہر میں معروف تھے۔
ریڈیو اور ٹی وی کے دور سے بھی پہلے سرکس ہی عوام کے لیے تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ تھا۔ گاؤں، قصبے، شہر۔ جہاں بھی سرکس کا خیمہ لگتا، وہاں گویا زندگی کا میلہ لگ جاتا۔
مگر جیسے جیسے ٹیکنالوجی ترقی کرتی گئی، سکرین نے اسٹیج کی جگہ لے لی۔ کھیل، فلم اور انٹرنیٹ نے سرکس کو پیچھے چھوڑ دیا۔ آج پاکستان میں چند ہی سرکس باقی رہ گئے ہیں، وہ بھی معاشی مشکلات، سکیورٹی خدشات، اور جدید تفریحی ذرائع کے باعث شدید دباؤ میں ہیں۔
ورلڈ سرکس ڈے کا مقصد یہی ہے کہ ہم اس فن کو فراموش نہ کریں۔ ہم ان فنکاروں کو یاد رکھیں جو زمین پر چلنے والے جادوگر تھے… اور آج بھی ہیں۔
یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انسان کی تخلیقی صلاحیت، جسمانی تربیت، اور فنی مہارت کیسے ایک ساتھ مل کر ایسا تماشا پیدا کر سکتی ہے جو نسلوں کے دلوں میں بس جائے۔
تو آئیے، اس ورلڈ سرکس ڈے پر ہم ان کہانیوں، ان چہروں، ان یادوں کو خراجِ تحسین پیش کریں… جو کبھی ہمارے بچپن کا خواب ہوا کرتے تھے۔