Follw Us on:

پتنگ بازی: روایت، تہوار یا پھر خطرناک تفریح؟

حسیب احمد
حسیب احمد

بسنت محض ایک تہوار نہیں بلکہ  ایک روایت ہے۔ ایک ایسی پہچان جو لاہور، گوجرانوالہ، فیصل آباد اور پنجاب کے دیگر شہروں کی فضاؤں میں برسوں لہراتی رہی۔

یہ تہوار اصل میں بہار کے آنے کی نوید ہے۔ سنسکرت زبان کا لفظ “بسنت” ہی “بہار” کے معنی دیتا ہے۔ چھتوں پر بیٹھے بزرگ، بچوں کی چیخ و پکار اور آسمان پر تیرتی رنگ برنگی پتنگیں، یہ سب کسی جادوئی منظر سے کم نہیں۔

بسنت کے دن لاہور شہر صرف پتنگوں سے نہیں بلکہ رنگوں، خوشبوؤں، قہقہوں اور قوالیوں سے بھی گونجتا تھا۔ خصوصی پکوان، گلیوں میں بجتی موسیقی اور میل جول کا ایک دلکش ماحول یہ سب کچھ لاہوری تہذیب کا حصہ تھا۔

اس تہوار نے صرف دلوں کو نہیں بلکہ معیشت کو بھی جوڑا تھا۔ پتنگ ساز، دھاگہ بنانے والے، چرخیاں تیار کرنے والے، کپڑے، ہوٹل، سیاحت اور ٹرانسپورٹ سب اس تہوار سے جڑے تھے۔ ہزاروں خاندانوں کا روزگار بسنت کی اُڑان سے بندھا تھا۔

لیکن خوشی کے ان رنگوں میں ایک سیاہ لکیر بھی تھی۔ ہر سال درجنوں نوجوان اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے تھے۔ کیمیکل سے بنی دھاتی ڈور، بے قابو جوش اور احتیاط سے عاری پتنگ باز ان سب نے بسنت کو موت کی ایک تصویر بنا دیا تھا۔

گلے کٹنے کے واقعات، چھتوں سے گر کر ہلاکتیں اور موٹر سائیکل سواروں کی گردنوں پر پڑنے والی خونی ڈور ان المناک حادثات نے اس تہوار کو تنازع کا شکار بنا دیا۔

حکومت کی جانب سے کئی بار پابندیاں لگائی گئیں عدالتی احکامات آئے اور پولیس کو حرکت میں آنا پڑا۔ مگر اس سب کے باوجود، کئی علاقوں میں خفیہ طور پر بسنت کا سلسلہ جاری رہا۔

لاہور ہائیکورٹ کے ایڈوکیٹ لہر اسب گوندل نے پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ  بسنت پر پابندی کا مقصد انسانی جانوں کو بچانا ہے، جو ایک مثبت قدم ہے۔ پتنگ بازی کے دوران تیز دھار ڈور اور موٹر سائیکل سواروں کی اموات جیسے واقعات کم ہوئے ہیں ۔ لیکن یہ پابندی لاکھوں پتنگ سازوں، خاص طور پر گھریلو خواتین کے روزگار پر بھاری پڑی ہے، جو اب بے روزگار ہو چکی ہیں.”

2009 میں حکومت نے بسنت پر مکمل پابندی عائد کی جس کی واضح وجہ انسانی جان کی قیمت تھی۔

مگر سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی تہوار کو مکمل ختم کرنا ہی واحد حل ہے؟

پتنگ بازی سے وابستہ افراد بے روزگار ہو گئے کئی افراد، جنہوں نے نشے یا جوا چھوڑ کر پتنگ بازی کو اپنایا تھا دوبارہ اندھیری گلیوں میں لوٹ رہے ہیں۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا بسنت کو محفوظ بنایا جا سکتا ہے؟ دنیا کے کئی ممالک، جیسے جاپان اور چین میں پتنگ بازی باقاعدہ ضابطوں کے تحت ہوتی ہے۔ وہاں بڑے بڑے پارک اور سٹیڈیمز اس مقصد کے لیے مختص کیے گئے ہیں۔

لہر آسب نے مزید کہا کہ “حکومت کو چاہیے کہ محفوظ پتنگ بازی کے لیے مخصوص زونز بنائے یا محفوظ ڈور کی تیاری کو فروغ دے، تاکہ ثقافت اور حفاظت دونوں کو برقرار رکھا جا سکے۔”
اگر حفاظتی اقدامات، جیسے کیمیکل ڈور پر پابندی، موٹر سائیکل سواروں کے لیے سیکیورٹی راڈز اور چھتوں پر حفاظتی گِرل، یہ سب اس کھیل کو محفوظ بنا سکتے ہیں۔
کیا ہم لاہور کے کسی کھلے میدان کو صرف بسنت کے لیے مخصوص نہیں کر سکتے؟ جہاں ہر کوئی بچوں سے لے کر بزرگوں تک، محفوظ انداز میں پتنگ بازی سے لطف اندوز ہو سکے؟

بسنت ایک روایت ہے، ایک تہوار ہے ایک جذبہ ہے۔ مگر اس روایت کو صرف تب زندہ رکھا جا سکتا ہے جب ہم اسے محفوظ بنائیں۔

حکومت کی ذمے داری ہے کہ وہ ضابطے بنائے اور عوام کی ذمے داری ہے کہ وہ ان کی پاسداری کرے۔

ایڈوکیٹ  لاہور ہائیکورٹ احمد ادریس ڈوگر نے پاکستان میٹرز کو بتایا ہے کہ اگر حکومت اور عوام مل کر کام کریں تو بسنت کو محفوظ طریقے سے منایا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے مخصوص پارک بنائے جا سکتے ہیں جہاں صرف محفوظ ڈور استعمال کی اجازت ہو۔”

انہوں نے مزید کہا کہ ” پتنگ بنانے والوں کو چاہیے کہ وہ ایسا مواد استعمال جس سے لوگوں کو کسی قسم کا خطرہ لاحق نا ہو”.

ان کا کہنا تھا کہ ” بسنت ہماری ثقافت کا اہم حصہ ہے اس لیے اسے مکمل ختم کرنے کی بجائے محفوظ بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔”

اگر ہم توازن برقرار رکھ سکیں، ثقافت اور حفاظت کا تو شاید وہ دن دور نہیں جب لاہور کی فضائیں ایک بار پھر رنگ برنگے پتنگ نظر آنے لگیں گے اور بسنت ایک بار پھر خوشی، رنگ اور امید کی علامت بن جائے۔

حسیب احمد

حسیب احمد

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس