اسرائیلی فوج نے اعتراف کیا ہے کہ غزہ میں مارچ کے مہینے میں پیش آنے والے ایک واقعے میں اس سے سنگین پیشہ ورانہ غلطیاں سرزد ہوئیں، جن کے نتیجے میں طبی عملے اور ریسکیو ورکرز کو نشانہ بنایا گیا۔ فوج کے مطابق اس واقعے میں ان کے کئی افسران نے ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کیا اور ان پر فوری کارروائی کی جا رہی ہے۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی فوج نے کہا کہ اس واقعے کے بعد ایک کمانڈنگ افسر کی سرزنش کی گئی ہے، جبکہ ایک نائب کمانڈر اور ایک فیلڈ کمانڈر کو نامکمل اور غلط معلومات دینے پر ان کے عہدوں سے برطرف کر دیا جائے گا۔
فوج نے تسلیم کیا کہ تحقیقات کے دوران کئی پیشہ ورانہ غلطیاں سامنے آئیں۔ نہ صرف احکامات کی خلاف ورزی کی گئی، بلکہ واقعے کی مکمل اور درست رپورٹ بھی جمع نہیں کروائی گئی۔ بیان میں کہا گیا کہ ابتدائی دو واقعات میں فوجیوں نے غلط فہمی کی بنیاد پر گولی چلائی، جب کہ تیسرا واقعہ حکم عدولی کا تھا۔
یہ واقعہ 23 مارچ کو غزہ کے جنوبی شہر رفح میں پیش آیا تھا، جہاں اسرائیلی فوج نے فائرنگ کر کے طبی عملے اور ریسکیو ٹیم کے 15 ارکان کو شہید کر دیا تھا۔ ان شہداء کی لاشوں کو اسرائیلی فوج نے دفن کر دیا تھا، تاہم بعد میں اقوام متحدہ اور فلسطینی ہلال احمر کے اہلکاروں نے ان کے جسد خاکی نکال لیے۔
اس واقعے کے بعد اسرائیل پر عالمی سطح پر شدید تنقید کی گئی، اور اسے جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا۔ عالمی عدالت میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اور ان کے سابق وزیر دفاع کے خلاف نسل کشی اور جنگی جرائم کے الزامات کے تحت گرفتاری کے وارنٹ بھی جاری کیے جا چکے ہیں۔
غزہ میں اسرائیل کی مسلسل بمباری اور زمینی کارروائیوں کے نتیجے میں اب تک 51,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں اکثریت خواتین اور بچوں کی ہے۔ عالمی اداروں نے اسرائیل کی کارروائیوں کو وحشیانہ اور انسانی حقوق کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔