سینیٹ کا ایوان بالا جہاں قانون بنتے ہیں, اب ایک نئی کشیدگی کا میدان بن چکا ہے۔ معاملہ چولستان کینال منصوبے کا ہے لیکن اس سے کہیں بڑھ کر یہ پانی کی تقسیم، سیاسی مفادات اور بین الصوبائی اعتماد کی ڈولتی دیواروں کی عکاسی کرتا ہے۔
منگل کو سینیٹ کا اجلاس میں تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے سینیٹرز کے درمیان چولستان کینال منصوبے پر نہ صرف سخت جملوں کا تبادلہ ہوا بلکہ الزامات، واک آؤٹ اور نعروں سے ایوان گونج اٹھا۔
سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے حکومت پر الزام عائد کیا کہ وہ کارپوریٹ فارمنگ کے لیے چولستان کی طرف پانی موڑ رہی ہے۔
پیپلز پارٹی کی شیری رحمٰن نے برہم لہجے میں مطالبہ کیا کہ ان کی جماعت کی قرارداد کو پہلے زیرِ غور لایا جائے۔ جب چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی نے پوائنٹس آف آرڈر کو نظر انداز کرتے ہوئے وقفہ سوالات کا آغاز کرنے کی کوشش کی تو پی ٹی آئی کے ارکان چیئرمین کے پوڈیم کے قریب پہنچ کر شدید احتجاج کرنے لگے۔
اس دوران سینیٹر فلک ناز چترالی نے پیپلز پارٹی پر “منافقت” کا الزام لگا دیا جس پر پیپلز پارٹی کے سینیٹر شہادت اعوان نے عمران خان کو “گھڑی چور” قرار دے کر جواب دیا۔
بات اتنی بڑھی کہ پیپلز پارٹی کے سینیٹرز نے بھی نہر منصوبے کے خلاف واک آؤٹ کیا۔ یوں یہ معاملہ قومی مسئلے سے ذاتی مخاصمت کی طرف بڑھنے لگا۔
یہ بھی پڑھیں: ”آزاد فلسطینی ریاست کی حمایت کرتے ہیں” ترک صدر طیب اردوان اور وزیرِاعظم شہباز شریف کی مشترکہ کانفرنس
اس ہنگامہ خیز اجلاس کے دوران وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے موقف اختیار کیا کہ حکومت معاملے پر کثیر الجماعتی مشاورت پر غور کر رہی ہے اور کسی بھی قسم کی یکطرفہ کارروائی نہیں کی جائے گی۔
انہوں نے ایوان کو یقین دلایا کہ سندھ حکومت کو اعتماد میں لیے بغیر کوئی قدم نہیں اٹھایا جائے گا۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ وزیر اعظم شہباز شریف کی ہدایت پر رانا ثنا اللہ نے سندھ حکومت سے رابطہ کیا ہے تاکہ تنازع کو خوش اسلوبی سے حل کیا جا سکے۔
پیپلز پارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر میڈیا سے گفتگو میں سخت الفاظ میں مطالبہ کیا کہ پانی کے بحران پر فوری طور پر مشترکہ مفادات کونسل (CCI) کا اجلاس بلایا جائے۔
انہوں نے حکومت کو متنبہ کیا کہ دریائے سندھ پر نئی نہریں قومی اتفاق رائے کے بغیر تعمیر کی گئیں تو یہ بین الصوبائی کشیدگی کو سنگین شکل دے سکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ “ہم یہ سوال کرتے ہیں کہ جب دریا خشک ہو رہا ہے تو نئی نہروں میں پانی کہاں سے آئے گا؟ یہ سندھ یا پنجاب کا مسئلہ نہیں یہ ایک قومی ایمرجنسی ہے۔”
لازمی پڑھیں: اسلام آباد: سیکیورٹی گارڈز کو مقررہ کم از کم اجرت نہ دینے پر نجی کمپنی کا منیجر گرفتار
شیری رحمٰن نے سندھ کے قحط زدہ علاقوں جیسے بدین، ٹھٹھہ اور سجاول کا ذکر کرتے ہوئے خبردار کیا کہ مقامی آبادی میں بے چینی بڑھ رہی ہے اور اگر ان کے خدشات دور نہ کیے گئے تو مزاحمت ناگزیر ہو جائے گی۔
قائد حزب اختلاف شبلی فراز نے بھی حکومت پر کڑی تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ “ربڑ اسٹیمپ” بن چکی ہے اور اہم آئینی ترامیم پر بھی خاطر خواہ بحث نہیں کی گئی۔
انہوں نے جیل میں قید پی ٹی آئی سینیٹرز کے پروڈکشن آرڈرز پر عملدرآمد میں تاخیر اور اسٹیٹ بینک ترمیمی بل کو بھی ہدف تنقید بنایا۔
انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر موجودہ صورت حال پر توجہ نہ دی گئی تو خیبر پختونخوا کی سینیٹ میں نمائندگی 2027 تک مکمل طور پر ختم ہو سکتی ہے۔
حیرت انگیز طور پر اس ہنگامہ خیز اجلاس کے درمیان سینیٹ نے پوپ فرانسس کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی بھی اختیار کی جیسے ایک پل کے لیے شور کے طوفان میں خاموشی کا وقفہ آ گیا ہو۔
چولستان کینال منصوبہ اب صرف ایک نہری اسکیم نہیں رہا۔ یہ آئینی تقاضوں، وفاقی ہم آہنگی اور عوامی مفادات کے درمیان توازن کا نازک امتحان بن چکا ہے۔
اگر حکومت نے بروقت اور شفاف فیصلے نہ کیے تو یہ نہر پانی کے بجائے سیاسی دراڑوں کی ایک گہری خندق میں بدل سکتی ہے۔