Follw Us on:

عدالت کی جانب سے ٹرمپ کا وائس آف امریکا بند کرنے کا حکم غیر آئینی قرار

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
عدالت کی جانب سے ٹرمپ کا وائس آف امریکا بند کرنے کا حکم غیر آئینی قرار

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو ایک اور بڑی عدالتی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے جب وفاقی عدالت نے ان کا وائس آف امریکا (VOA) سمیت تین بڑے نشریاتی اداروں کو بند کرنے کا فیصلہ غیر آئینی قرار دے دیا۔

عدالت نے نہ صرف اداروں کی بحالی کا حکم دیا بلکہ ٹرمپ حکومت کی میڈیا پر قدغن لگانے کی کوشش کو آئینی اصولوں کے منافی قرار دے دیا۔

یہ فیصلہ وفاقی جج رائس لیمبرتھ نے سنایا، جنہوں نے وائس آف امریکا، ریڈیو فری ایشیا اور مڈل ایسٹ براڈکاسٹنگ نیٹ ورکس کے خلاف لیے گئے اقدامات کو “غیر قانونی، جلدبازی پر مبنی اور بنیادی آزادیوں پر حملہ” قرار دیا۔

جج نے واضح طور پر کہا کہ حکومت نے ان اداروں کے صحافیوں، ملازمین اور دنیا بھر کے میڈیا صارفین کے حقوق کو یکسر نظر انداز کیا۔

عدالتی حکم کے مطابق تینوں اداروں کے تمام برطرف شدہ ملازمین کو ان کے پرانے عہدوں پر بحال کیا جائے گا اور فنڈنگ میں کی گئی کٹوتیاں بھی فوراً واپس لی جائیں گی۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے جب دنیا بھر میں آزادی صحافت پہلے ہی شدید دباؤ میں ہے۔

یہ بھی پڑھیں: انڈین پروپیگنڈہ پر مضبوط اور متحد جواب دیا جائے، پاکستانی سیاست دانوں کا پہلگام واقعہ پر ردِعمل

وائس آف امریکا کی وائٹ ہاؤس بیورو چیف اور اس کیس کی مرکزی مدعی پیٹسی وداکوسوارا نے عدالتی فیصلے کو آزادی صحافت کی فتح قرار دیتے ہوئے کہا کہ “یہ محض ایک عدالتی جیت نہیں بلکہ سچ بولنے کے حق کی بحالی ہے۔”

تاہم، انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ سابق حکومت کی باقیات اس فیصلے کے خلاف اپیل دائر کر سکتی ہیں۔

یاد رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ نے وائس آف امریکا اور دیگر اداروں کو “جانبدار اور ٹرمپ مخالف” قرار دیتے ہوئے 1,300 سے زائد ملازمین کو جبری رخصت پر بھیج دیا تھا، جن میں ایک ہزار سے زائد تجربہ کار صحافی شامل تھے۔

وائس آف امریکا، جو دوسری جنگ عظیم کے دوران نازی پروپیگنڈے کا توڑ کرنے کے لیے قائم ہوا تھا، آج دنیا بھر میں صحافت کا معتبر نام سمجھا جاتا ہے۔

لازمی پڑھیں: فلسطینی صدر کا حماس سے ہتھیار ڈالنے کا مطالبہ

دلچسپ بات تو یہ ہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنے دوسرے دور صدارت کے آغاز پر اپنے قریبی سیاسی اتحادی کاری لیک کو وائس آف امریکا کا سربراہ مقرر کیا تھا، جنہوں نے 2020 کے انتخابات میں ٹرمپ کے بے بنیاد دھاندلی کے دعووں کی کھل کر حمایت کی تھی۔

یہ عدالتی فیصلہ نہ صرف ٹرمپ حکومت کی میڈیا پر دباؤ ڈالنے کی کوششوں پر کاری ضرب ہے بلکہ عالمی سطح پر صحافت کی آزادی کے لیے ایک مضبوط پیغام بھی۔

امریکا جیسے جمہوری ملک میں اگر میڈیا اداروں کو سیاسی ایجنڈے کے تحت بند کیا جانے لگے تو دنیا کے باقی ممالک میں کیا پیغام جائے گا؟

عدالت نے آخر میں زور دیا کہ حکومت کو آئندہ ایسے اقدامات سے باز رہنا ہوگا جو آئین اور جمہوری اقدار کی خلاف ورزی کریں۔

وائس آف امریکا کے صحافی اب ایک بار پھر اپنے مشن پر واپس لوٹ رہے ہیں، بغیر کسی سیاسی دباؤ کے۔

مزید پڑھیں: روس کا یوکرین پر ڈرون حملہ، 9 افراد ہلاک، 70 سے زائد زخمی

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس