April 26, 2025 10:34 pm

English / Urdu

Follw Us on:

شہباز، بلاول پریس کانفرنس، سیاسی مصلحت کی شکار سیاست

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک

یہ کوئی نئی بات نہیں کہ پاکستان کی سیاست میں ہر مسئلہ صرف اس وقت اہم سمجھا جاتا ہے جب وہ کسی مخصوص سیاسی جماعت کے مفاد میں ہو۔ وزیراعظم شہباز شریف کا متنازع نہری منصوبے کو مشترکہ مفادات کونسل میں لے جانے کا اعلان اور بلاول بھٹو زرداری کے ساتھ کھڑے ہو کر “باہمی رضامندی” کی تکرار، دراصل ایک سیاسی مصلحت کو اصول کا لبادہ پہنانے کی کوشش ہے۔

پاکستان ایک وفاق ضرور ہے، لیکن بدقسمتی سے یہاں وفاقی سوچ مصلحتوں کے نیچے دب کر رہ گئی ہے۔ کالا باغ ڈیم جیسا منصوبہ، جو دہائیوں سے اس ملک کی معیشت، زراعت اور توانائی کے بحران کا حل بن سکتا تھا، صرف اس لیے رُکا رہا کہ کچھ سیاسی جماعتوں نے اسے ذاتی یا صوبائی انا کا مسئلہ بنا لیا۔

 آج جب وزیراعظم خود اس منصوبے کو “پاکستان کے مفاد میں بہترین” قرار دیتے ہیں، تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان کی پارٹی نے گزشتہ تیس برسوں میں اس کے خلاف اپنی خاموشی کا کوئی کفارہ ادا کیا ہے؟ یہ بات کہی گئی کہ سندھ کے اعتراضات کو فوقیت دی گئی ہے لیکن کیا کسی نے کبھی سنجیدگی سے ان اعتراضات کی نوعیت اور حقیقت پر بات کی یا یہ اعتراضات بھی محض سیاسی نعروں کی پیداوار تھے؟ 

اگرسندھ کو کالا باغ ڈیم سے نقصان پہنچنا تھا، تو آج تک کوئی قابلِ فہم، سائنسی یا قانونی تحقیق کیوں سامنے نہ آ سکی؟ اصل بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی نے اس معاملے کو ہمیشہ اپنے ووٹ بینک کے تحفظ کے لیے استعمال کیا، اور ن لیگ نے ہمیشہ “سیاسی وقت” کا انتظار کیا۔مشترکہ مفادات کونسل کی اہمیت سے انکار نہیں، مگر کیا یہ کونسل واقعی صوبوں کے مسائل حل کرنے کے لیے استعمال ہوتی ہے یا صرف سیاسی توازن قائم رکھنے کے لیے؟

مزید پڑھیں: وزیراعظم، بلاول ملاقات: ’حکومت نے پیپلزپارٹی کی تمام شرائط مان لیں

 جب تک کونسل کی بنیاد خالص نیت اور خلوص پر نہیں، تب تک وہاں سے اٹھنے والے فیصلے صرف “بیانات” کی حد تک ہی رہیں گے۔ آج وزیراعظم فرما رہے ہیں کہ “باہمی رضامندی تک نہریں نہیں بنیں گی”، مگر وہ یہ نہیں بتاتے کہ اگر کبھی یہ رضامندی نہ ہوئی، تو کیا ملک پانی کے بحران میں گھرا رہے گا؟ کیا اگلی نسلیں صرف اس لیے پانی کے قطرے کو ترسیں گی کہ ان کے بڑوں نے سیاسی مصلحتوں کو قومی مفاد پر فوقیت دی؟

یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پاکستان کا زرعی شعبہ تیزی سے تباہی کی طرف جا رہا ہے۔ پانی کی قلت بڑھ رہی ہے، زراعت میں پیداوار کم ہو رہی ہے، کسان خودکشیاں کر رہے ہیں، اور شہروں میں پانی کی فراہمی بھی غیر یقینی بنتی جا رہی ہے۔ کیا ان حالات میں ملک کو ایسے فیصلوں کی ضرورت نہیں جو وقت ضائع کیے بغیر عمل میں لائے جائیں؟ 

بلاول بھٹو کی موجودگی میں وزیراعظم کی گفتگو نے ایک اور پہلو کو اجاگر کیا “دو ایسی جماعتیں جو ہمیشہ ایک دوسرے پر الزامات لگاتی رہیں، آج بظاہر ایک پلیٹ فارم پر کھڑی ہیں لیکن کیا یہ اتحاد بھی صرف اقتدار کے تحفظ کے لیے ہے؟پچھلے دس سالوں میں دونوں جماعتوں نے بار بار قومی مسائل پر سیاسی مفاہمت کا ڈھونگ رچایا، مگر کوئی ایک مسئلہ ایسا نہیں جس پر دونوں نے ملک و قوم کے مفاد میں کوئی دیرپا اور حقیقی فیصلہ کیا ہو۔ نہری منصوبوں کا ذکر ہو یا کالا باغ ڈیم کا،بات وہی ہے،فیصلہ ہو بھی جائے تو عملدرآمد کی ضمانت کہاں ہے؟ماضی میں بھی کئی منصوبے منظوری کے بعد فائلوں میں دفن ہو چکے ہیں۔وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ “وفاق کے مفادات سے متصادم فیصلے سے گریز کیا جائے گا”بظاہر خوش کن ہے مگر کیا کبھی کسی نے وضاحت کی کہ وفاق کا مفاد کس کی نظر میں کیا ہے؟کیا وفاقی حکومتوں نے کبھی عوامی رائے کو سامنے رکھ کر پالیسیاں بنائیں؟یا فیصلے ہمیشہ “اقتدار کے اشتراک” کی میز پر طے پاتے رہے ہیں؟

آج جب ملک معاشی بحران،سیاسی عدم استحکام اور ادارہ جاتی کمزوری کا شکار ہے تو کیا ایسے مبہم بیانات مسئلوں کا حل ہیں یا ان کی شدت میں اضافہ؟یہ وقت ہے کہ سیاستدان “مشترکہ مفادات کونسل”کو محض ایک رسمی پلیٹ فارم بنانے کی بجائے اسے ایک فیصلہ کن اور بااختیار ادارہ بنائیں،جس کے فیصلے محض قراردادیں نہ ہوں بلکہ عملدرآمد کا عملی خاکہ بھی ساتھ لیے ہو۔

 پاکستان کو آج سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے “فیصلہ سازی”۔ یہ قوم مزید تاخیر کی متحمل نہیں ہوسکتی۔ نہروں، ڈیموں،توانائی منصوبوں اور زراعت جیسے اہم مسائل پر سیاسی بیان بازی سے زیادہ کسی واضح،طویل المدتی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔عوام کو پانی چاہیے، وعدے نہیں۔کسان کو زمین سیراب چاہیے،تقاریر نہیں اور قوم کو ترقی چاہیے،نہ کہ بے مقصد اجلاس۔

حکومت وقت اور پیپلز پارٹی کو چاہیے کہ وہ اس ملک کی زمین،اس کے دریا،اس کے کسان اور اس کے بچوں سے وفاداری نبھائیں۔یہ صرف اسی وقت ممکن ہے جب سیاسی انا، مفادات اور وقتی فائدے سے بالاتر ہو کر فیصلے کیے جائیں۔بصورت دیگر،یہ بیانات بھی ماضی کے جھوٹے وعدوں کی طرح تاریخ کے کوڑے دان میں دفن ہو جائیں گے اور قوم صرف ایک اور “کونسل” کا انتظار کرتی رہ جائے گی۔

نوٹ: بلاگر کے ذاتی خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔ ایڈیٹر

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس