Follw Us on:

معدنی وسائل یا سیاسی میدان؟ مائنز اینڈ منرلز بل پر تنازع کیوں ہے؟

دانیال صدیقی
دانیال صدیقی

خیبر پختونخواہ کی اسمبلی میں حالیہ پیش کیا گیا “مائنز اینڈ منرلز بل 2025” ایک ایسا قانون ہے جو بظاہر معدنی وسائل کی ترقی اور سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے پیش کیا گیا ہے، لیکن اس کے مضمرات نے صوبے کی سیاسی، معاشی اور سماجی فضا میں ہلچل مچا دی ہے۔ یہ بل  4 اپریل 2025 کو اسمبلی میں پیش کیا گیا،جو نہ صرف حکومتی جماعت کے اندر اختلافات کا باعث بنا بلکہ اسے اپوزیشن، صنعتکاروں اور سول سوسائٹی کی جانب سے بھی شدید تنقید کا سامنا رہا ہے۔

 اپوزیشن جماعتوں کے مطابق یہ قانون صوبائی خودمختاری پر وفاقی مداخلت کی کوشش ہے، جو آئین کی اٹھارویں ترمیم کی روح کے منافی ہے۔​

اس قانون کا مسودہ  139 صفحات پر مشتمل ہے، جب کہ اس  کے تحت مجوزہ “مائنز اینڈ منرل فورس” اور “منرل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن اتھارٹی” جیسے ادارے قائم کرنے کی تجویز دی گئی ہے، جو معدنی وسائل کی نگرانی اور ترقی کے لیے کام کریں گے۔  اپوزیشن جماعتوں کا مؤقف ہے کہ یہ اقدامات مقامی صنعتکاروں اور چھوٹے پیمانے پر کام کرنے والے کان کنوں کے مفادات کو نظرانداز کرتے ہیں، اور بڑے سرمایہ کاروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے کیے جا تے ہیں۔یہاں اس پہلو کو بھی سامنے رکھنا ضروری ہے کہ اس بل میں تکینکی بنیادوں پر کونسی کمی ہے جس کو پورا ہونا ضروری ہے۔

ڈاکٹر سیما صدیقی ماہر ارضیات اور وفاقی اردو یونیورسٹی میں شعبہ جیالوجی کی سابقہ چیئرپرسن ہیں ۔  پاکستان میٹرز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ منرل اینڈ مائنربل میں جزوی طور پر تذکرہ کی شکل میں تو  خیبر پختونخواہ کے معدنی تنوع کا خیال مختلف معدنیات پر ٹیکس لگانے کی حد تک یعنی ،میکانائزڈ مائننگ،ای بڈنگ،منرل ڈیولپمنٹ کمپنی اور ریسرچ  فنڈ  کی حد تک تو نظر آرہا ہے مگر اس بل میں نایاب اور قیمتی معدنیات کے حوالے سے کوئ الگ سے خاص پالیسی،ریسرچ یا ایکسپورٹ کرنے کا فریم ورک نظر نہیں آرہا۔ مثلاً اس میں ریسرچ سینٹرز،مائننگ ٹریننگ انسٹیٹیوٹ ،اور ویلیو ایڈیشن یونٹس کے قیام کے حوالے سے کوئی واضح لائحہ عمل موجود نہیں ہے۔

 اس میں بل میں انوائرمنٹل امپیکٹ اسسمنٹ کے حوالے سے کوئی لاذمی شرط موجود نہیں ہےجس کے نتیجے میں واضع منصوبہ بندی نہ ہونے سےماحول کو شدید نقصان پہنچنے کا خدشہ موجود ہے دھواں شور اور زہریلے کیمیکلز ماحول میں فضائی ،آبی اور زمینی آلودگی بڑھا سکتے ہیں,کان کنی میں پانی کا بہت زیادہ استعمال خاص طور پر زیر زمین موجود پانی کوہستان چترال میں  کمی کا باعث بن سکتا ہے،جنگلات کے کٹنے سے اور کھدائیوں سے مقامی ایکو سسٹم متاثر ہوگا،خاص طور پر قراقرم اور ہندوکش کی حیاتیات کو بہت نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوگا،زمینی کٹاؤ اور لینڈ سلائیڈنگ کے امکانات بڑھ جائیں گے ،ماحول میں خوردبینی ہیوی میٹلز اور سلیکا کے ذرات کا اضافہ انسانی صحت کے لیے خطرناک ہوگا اور اوپر سے مناسب انداز میں ریہیبیلیٹیشن کا نہ ہونا نقصانات کو دو چند کر دے گاکے پی کے کا تقریباً پورا ہی صوبہ شدید زلزلائ خطرات کی زد میں شمار ہوتا ہے یہاں انڈین اور یوریشین پلیٹس آپسمیں ٹکرا کر اپنے رنگ دکھاتی رہتی ہیں ایسے علاقوں میں کانکنی سے لینڈ سلائیڈنگ ،زیرزمین دوران کان کنی بنائ جانے والی گیلریاں گر جاتی ہیں کیمیکلز وغیرہ کو اسٹور رکھنے والے ٹینکس پھٹ کر قریبی ابادی کو اور صاف پانی کے ذخائر کو متاثر کرسکتے ہیں زیر زمین موجود پانی کی گذرگاہیں اور نالیاں متاثر ہو سکتی ہیں۔ اس لیے ضروری ہےکہ ہر مائینگ پروجیکٹ سے پہلے سیزمک ہزارڈس اسسمنٹ لازمی قرار دی جائے، ایمرجنسی ایوالوشن پلان اور مطلوبہ ٹرینگس لازمی ہوں۔

  مائنگ بل کے حوالے سے   ڈاکٹر سیما نے مزید بتا یا کہ موجودہ مائننگ پالیسی میں مائننگ کے حوالے سے ماضی میں پیش آنے والے واقعات و خطرات کو مد نظر رکھ کر کوئ باقاعدہ لازمی شق  نہیں رکھی گئی ہے البتہ اسے جزوی طور پر شامل ضرور کیا گیا ہے جو ایک الارمنگ امر ہے ورنہ اس حوالے سے ای آئی اے ہی کے اصول و ضوابط کو کم از کم لازمی قرار دیا جایے نیز مائن بند ہونے پر متعلقین کو فنڈز اور ان کی ریہیبیلیٹیشن کا فنڈ ضرور قائم ہوبطور ایک جیالوجسٹ وہ  سمجھتی ہیں کہ مائننگ پاکستان کے کسی بھی حصے میں ہو وہاں مائننگ پروجیکٹس دینے سے قبل انوائرمنٹل اپمیکٹ اسسمنٹ لازمی قرار دیا جائے تاکہ ماحول متاثر نہ ہو۔ ڈاکٹر سیما نے بل کے حوالےسے تجویز دیتے ہوئے  کہا کہ جنگی بنیادوں پر Mining suitability zoning کو لازمی قرار دینا چاہیے۔تمام مائنگ کمپنیز کو Water resourse management plan بنانے کاپابند کیا جائے تاکہ Post mining rehabilitation کو قانونی اور لازمی بنایا جائے جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے مسلسل نگرانی کی جائے کمیونٹی کو شامل کرکے مقامی مائننگ کے مسائل کا حل تلاش کرنا ہوگا غیر ملکیوں سے زیادہ اپنے ماہرین اور لیبر پر بھروسہ کرنا اور مطلوبہ ٹرینگس مہیا کرنا لازمی قرار دیاجانا اچھا عمل ہوگا۔

پاکستان کے معدانی وسائل کے حوالے سے ڈاکٹر سیما کا کہنا تھا کہ خیبر پختونخواہ کے علاوہ پاکستان میں صوبہ بلوچستان کے علاقوں ریکوڈک چاغی میں سونا اور تانبہ سیندک میں تانبہ سونا چاندی،خاران میں لیتھیم،کی موجودگی کے ابتدائی شواہد موجود ہیں اس کے علاوہ گلکت بلتستان میں اسکردو اور شگر کے مقامات پر ایمرالڈ،ایکوامیرین،ٹورمالین اور روبی جیسے قیمتی نایاب جواہر موجود ہیں جبکہ گوری کوہ، ہنزہ میں ٹوپاز،گارنیٹ اور اوبسیڈین پائے جاتے ہیں پنجاب میں سلسلہ کوہ نمک کھیوڑہ میں نمک کا دنیا کا دوسرا بڑا ذخیرہ چنیوٹ میں لوہے تانبہ اور ممکنہ طور سونے کے ذخائر بھی تصدیق شدہ ہیں صوبہ سندھ میں ٹھٹہ اور تھر پارکر میں کوئلہ کے بڑے ذخائر،جامشورو میں فلورائیڈ ،اور جپسم نمایاں ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں  شانگلہ کوہستان دیر ایمرالڈ ،نیلم،روبی،سفائر،اوربیریل جبکہ مہمند باجوڑ میں ماربل ،کرومائیٹ،چترال میں اینٹی منی،اور جیم اسٹونز،اور کرک کوہاٹ میں گیس فاسفیٹ اور جپسم نمایاں ہیں۔

اپوزیشن  کی جانب سے بھی حکومت کو شدید تنقید کا سامنا ہے۔ عوامی نیشنل پارٹی کے سربراہ ایمل ولی نے اس بل کو صوبائی خودمختاری پر حملہ قرار دیا ہے اور اسے جعلی قرار دیتے ہوئے حکومت کو اسے واپس لینے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔  اے این پی سربراہ کے مطابق ملک کو داخلی و خارجی سطح پر پہلے ہی شدید خطرات لاحق ہیں، جن میں بلوچ لبریشن آرمی، داعش، تحریک طالبان افغانستان و پاکستان، ایران، افغانستان اور بھارت کے ساتھ کشیدہ تعلقات شامل ہیں، ایسے میں ریاست کو ایک اور محاذ کھولنے سے گریز کرنا چاہیے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’جب آپ کے اتنے دشمن ہوں تو پھر اپنے ہی لوگوں کو ناراض کر کے ایک نیا دشمن پیدا نہ کریں۔‘ اگر ریاست خیبر پختونخوا کے عوام سے ان کے وسائل اور اختیارات چھینتی رہی، تو قوم کو ایسے پاکستان سے بغاوت پر مجبور ہونا پڑے گا۔ ہم نے پاکستان کے لیے بڑی قربانیاں دی ہیں، لیکن اگر یہی ریاست میرے بچے کا نوالہ اور کپڑے چھینتی ہے، تو ایسے پاکستان سے علیحدگی بہتر ہے۔

تاہم حکومتی حلقوں کی جانب سے بھی اس پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا مگر وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین خان گنڈاپور نے “مائنز اینڈ منرلز بل 2025” کے حوالے سے وضاحت دیتے ہوئے کہا ہے کہ صوبے کے قدرتی وسائل یہاں کے عوام کی امانت ہیں، اور ان کے تحفظ کے لیے حکومت ہر ممکن قدم اٹھائے گی۔  صوبائی خودمختاری پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

انہوں نے اس حوالے سے پھیلنے والی افواہوں اور الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ،چند عناصر جان بوجھ کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، جو حقائق کے منافی ہے۔ مجوزہ بل شفافیت، ترقی اور عوامی مفادات کے تحفظ کے لیے تیار کیا گیاہے۔

دانیال صدیقی

دانیال صدیقی

Share This Post:

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

متعلقہ پوسٹس