Follw Us on:

“ماضی کی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے” اراکین سندھ اسمبلی کے توجہ دلاؤ نوٹسز پر سعید غنی کا جواب

نیوز ڈیسک
نیوز ڈیسک
Saeed Ghani
فائل فوٹو / گوگل

کراچی (دانیال صدیقی) آج سندھ اسمبلی میں مختلف اراکین کے توجہ دلائو نوٹسز کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ بلدیاتی اداروں کے ریونیو میں اضافہ تو ہو رہا ہے مگر ماضی کی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔

وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے مزید کہا کہ محکمہ بلدیات کے زیر انتظام محکموں میں زیادہ تر محکموں میں ریٹائرڈ ملازمین کو پینشن کی ادائیگی کی جارہی ہے البتہ ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات کی عدم ادائیگی کا معاملہ ہے۔

وزیر بلدیات نے کہا کہ کراچی میونسپل کمیٹی (کے ایم سی) میں سابق مئیر وسیم اختر نے ملازمین کے جو پیسے علیحدہ اکائونٹ میں جمع ہوتے تھے ان کو بھی خرچ کردیا تھا۔ سندھ حکومت اس وقت بھی کے ایم سے کو ماہانہ 1.2 ارب ملازمین کی تنخواہوں اور پینشن کی مد میں ادا کررہی ہے، جو سابق سٹی ناظم مصطفی کمال نے اپنے دور میں ایک بار500 ملین ادھار مانگے تھے۔

بڑھتی آلودگی اور غیر قانونی پارکنگ اسٹینڈز پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ڈسٹرکٹ ایسٹ میں سندھ سولڈ ویسٹ کے تحت جو چائنیز کمپنی کام کررہی تھی اس کا کنٹریکٹ دوبارہ اس لئے نہیں کیا جارہا ہے کہ وہ ادائیگی کو ڈالر کی بجائے پاکستانی روپے میں نہیں لینا چاہ رہی۔ قانونی چارجڈ پارکنگ کے علاوہ شہر میں جتنی بھی غیر قانونی پارکنگ ہیں اس کے خاتمے کی ذمہ داری محکمہ بلدیات نہیں بلکہ پولیس و قانون نافذ کرنے والوں کا ہے۔

ایم کیو ایم کے رکن عبدالوسیم کے توجہ دلائو نوٹس پر جواب دیتے ہوئے صوبائی وزیر بلدیات سندھ سعید غنی نے کہا کہ یہ حقیقت ہے کہ ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات کی ادائیگی میں مسائل موجود ہیں اور بہت سے ملازمین پریشان ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اب کے ایم سی میں پینشن ریگولر مل رہی ہے اور پی ایف بھی ادا کردئے گئے ہیں البتہ واجبات کی مد میں 13 ارب روپے کے بقایاجات ہیں، جولائی 2017 تک کے ریٹائرڈ ملازمین کے واجبات ادا کردئیے گئے ہیں اس کے بعد کے بقایاجات باقی ہیں۔

سعید غنی نے کہا کہ ڈی ایم سیز کے ملازمین کے بقایاجات 2023 تک کے ایم سی کو ادا کرنے چاہیے یہ ہمارا موقف ہے اس کے بعد کے بقایاجات ٹاؤنز کو ادا کرنے ہیں۔ نئے ملازمین پر تو یہ ہوسکتا ہے کہ ان کو ٹائون ادا کرے لیکن پرانے پر نہیں۔

وزیر بلدیات سندھ نے کہا کہ کے ایم سی کی مزید ڈیمانڈ پر سندھ حکومت نے 2.76 ارب روپے کے ایم سی کو لون کی مد میں دینے کی منظوری دے دی ہے، اس وقت کے ایم سی کے اپنے ذرائع سے بھی ان کے ریونیو میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہر ادارے میں ملازمین کی تنخواہوں کا اکائونٹ الگ ہوتا ہے لیکن سابقہ میئر وسیم اختر نے وہ پیسے کسی اور مد میں خرچ کردئیے تھے۔ اسی طرح کے ڈی اے میں ستمبر 2020 کے بعد کے ملازمین کے 3.8 ارب روپے کے واجبات ہیں۔ انہوں نے بھی سندھ حکومت کو 3 ارب روپے کی گرانٹ کے لیے لکھا ہے۔

وزیر بلدیات نے کہا کہ ہم کے ڈی اے کو بھی ماہانہ 40 کروڑ روپے تنخواہوں اور پنشن کی مد میں سندھ حکومت دے رہی ہے۔ کے ڈی اے میں بھی تمام پینشنرز کو باقاعدگی سے پینشن مل رہی ہے۔ اسی طرح کابینہ نے حیدرآباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے لئے گذشتہ روز کابینہ نے 500 ملین کی گرانٹ منظور کی ہے البتہ اس کے میکنزم کے لئے کابینہ کی سب کمیٹی بنائی گئی ہے تاکہ آئندہ اس طرح ملازمین۔ کے واجبات ادا کرنے میں مشکلات نہ ہوں۔

سعید غنی نے کہا کہ اس وقت سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں کسی ملازم کے واجبات نہیں ہیں جبکہ کراچی واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن میں جولائی 2020 ہے بعد سے دسمبر 2024 تک 5.1 ارب کے واجبات ہیں، جن میں سے ان کے کئی سرکاری اداروں پر 2.1 ارب ہے واجبات ہیں جس کی ری کنشیلیش کرلی گئی ہے جبکہ واٹر بورڈ کا 2.5 ارب کا دعوہ ہے۔ اس کے علاوہ واٹر بورڈ کے وفاقی اداروں پر بھی 12.5 ارب روپے کا دعوہ ہے، جس کی ری کنشیلیشن کروائی جارہی ہے۔ اس وقت واٹر بورڈ کے ریونیو بھی بہتر ہورہا ہے تو انشاءاللہ وہاں بھی ملازمین کے واجبات جلد ادا کردئیے جائیں گے۔

ایم کیو ایم کے رکن عامر صدیقی نے اپنے  توجہ دلائو نوٹس میں کہا کہ ان کے حلقے بشمول جمشید ٹائون وغیرہ میں صفائی اور کچرہ نہیں اٹھایا جاتا۔ اس غفلت کی وجہ سے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا ہے جبکہ بنوری ٹائون جہاں کئی غیر ملکی طلبہ زیر تعلیم ہے اس کے پاس کچرہ کنڈی ہے، وہاں کا یوسی چیئرمین کوئی کام نہیں کرتا۔ جس پر سعید غنی نے جواب میں کہا کہ صرف معزز ممبر نہیں بلکہ اس وقت ڈسٹرکٹ ایسٹ کے تمام ٹاؤنز میں سولڈ ویسٹ کے حوالے سے اشیو ہے۔

 

یہ پاکستان میٹرز نیوز ڈیسک کی پروفائل ہے۔

نیوز ڈیسک

نیوز ڈیسک

Share This Post:

متعلقہ پوسٹس